آسام میں مدارس کا خاتمہ — قانون، سیاست اور بقا کی جنگ
غالب شمس
آسام میں مسلمان مدارس اور مساجد حکومتی عتاب کا شکار ہیں، نومبر 2023 سے جولائی 2025 تک آسام میں سرکاری انخلا مہم کے دوران مساجد اور مدارس کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا۔
آسام وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما بارہا مدارس کی کھل کی مخالفت کرچکے ہیں، اور مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، اپنے ایک بیان میں شرما نے کہا کہ” “مدرسہ” کا لفظ ہی مٹ جانا چاہیے، کیونکہ اگر ذہن میں مدرسہ رہے گا تو بچے ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکیں گے۔ "

روایت ڈاٹ کام نے آسام میں مدارس کی صورتحال پر زمینی رپورٹنگ کی اور پتہ لگایا کہ وہاں مدارس کی صورتحال کیا ہے۔
وہاں اب تک تقریباً ایک سو تیس مکاتب و مدارس منہدم کیے جاچکے ہیں، اور تمام 1281 سرکاری مدارس انگریزی میڈیم اسکول میں بدل دیے گئے۔
آسام میں مدارس کی تاریخ
آسام میں مدارس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ 1934 میں پہلی مرتبہ مدرسوں کی تعلیم کو ریاست کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا اور اسی برس مدرسہ بورڈ بھی قائم کیا گیا۔ اس کے بعد 1977 میں ان کے نصاب میں ترمیم کی گئی۔ پھر 1995 میں ریاستی حکومت نے مدارس کو باضابطہ سرکاری حیثیت دی اور انہیں تین زمروں میں تقسیم کیا: پری سینیئر (چھٹی تا آٹھویں)، سینیئر (آٹھویں تا بارہویں) اور ٹائٹل مدارس (انڈر گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ سطح)۔ اس کے ساتھ چار عربی کالجز بھی قائم تھے جن میں چھٹی سے پوسٹ گریجویٹ تک تعلیم دی جاتی تھی۔
2018 میں اس وقت کے وزیر تعلیم ہیمنت بسوا سرما نے مدرسہ بورڈ تشکیل دیا اور نصاب میں مزید تبدیلی کی۔ مگر صرف دو سال بعد حکومت نے رخ بدل لیا۔ 13 نومبر 2020 کو کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام سرکاری اور امداد یافتہ مدارس کو عام اسکولوں میں بدل دیا جائے اور دینی مضامین ختم کر دیے جائیں۔ جنوری 2021 میں اسمبلی نے اس فیصلے کو قانونی شکل دی۔ 27 جنوری کو گورنر نے "آسام مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 1995” اور "آسام مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2018” کو منسوخ کر دیا۔ 12 فروری کو مدرسہ بورڈ بھی تحلیل کر دیا گیا۔ اس عمل سے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے سیکڑوں مدارس اور عربی کالجز متاثر ہوئے۔
بی بی سی کے مطابق ایک ہی حکم نامے کے ذریعے 1281 مدارس کو "مڈل انگلش اسکولز” قرار دے دیا گیا۔ یہ ادارے 19 اضلاع میں پھیلے ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ 269 مدارس دھوبری ضلع میں، 165 ناگون میں اور 158 بارپیٹا میں متاثر ہوئے۔ وزیر تعلیم رانوج پیگو نے اس فیصلے کی تصدیق سوشل میڈیا پر کی۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما بار بار دعویٰ کرتے ہیں: "ہم نے اب تک آسام میں 800 مدرسے ختم کیے ہیں اور باقی پر ہماری نظر ہے۔”
حکومت کا مؤقف ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ بتایا گیا کہ ان مدارس پر ہر سال تین سے چار کروڑ روپے خرچ ہو رہے تھے۔
آسام میں سرکاری مدارس ختم
اب آسام میں کوئی سرکاری مدرسہ باقی نہیں رہا۔ یہ سب اسکولوں میں بدل چکے ہیں۔ صرف غیر سرکاری مدارس باقی ہیں جنہیں قوم چلا رہی ہے۔ ان کی تعداد تقریباً 3000 بتائی جاتی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق سات بورڈز کے تحت 2250 پرائیویٹ مدارس ہیں، جن میں "آل آسام تنظیم مدارس قومیہ” کے 1569 مدارس شامل ہیں۔
روایت کے نمائندے نے آسام کے ضلع نوگاؤں کے ایک مقامی شخص محمد ہود سے بات چیت کی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے سرکاری مدرسوں کو عام اسکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے، پورا تعلیمی نصاب بدل گیا ہے۔ پہلے یہ مدرسے اسلامی تعلیمات کے باقاعدہ نصاب پر قائم تھے، اب وہاں صرف عصری نصاب کا ایک ادھورا حصہ باقی رہ گیا ہے۔
محمد ہود کے مطابق نصاب کی اس تبدیلی کے بعد بہت سے طلبہ نے سرکاری مدرسوں سے اپنے نام کٹوا کر پرائیویٹ دینی اداروں میں داخلہ لے لیا ہے تاکہ وہ خالص مذہبی تعلیم حاصل کر سکیں، ایک دوسرے مقامی شخص محمد مصبر نے بتایا کہ کئی سرکاری مدرسوں میں مولوی حضرات پڑھایا کرتے تھے، مگر اب انہیں وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔
مولانا روح الامین قاسمی، سکریٹری آل آسام تنظیم مدارس قومیہ، نے اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"اب تو کوئی سرکاری مدرسہ رہا ہی نہیں۔ سب اسکولوں میں بدل دیے گئے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ غیر سرکاری مدارس ہیں، جو قوم چلاتی ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے یہ ادارے – اہلِ حدیث، جمعیت، بریلوی، ندوی – سب ملا کر تین ہزار سے زائد ہو جاتے ہیں۔”
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: "حکومت کبھی کہتی ہے کہ غیر سرکاری مدارس چلتے رہیں گے، کبھی دباؤ ڈالتی ہے کہ ان میں اسکولی تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن فی الحال کوئی بہت زیادہ خوف کا ماحول نہیں ہے۔ البتہ کچھ اندیشے بہت حال ہوتے ہیں۔”
قاسمی نے مزید کہا: "ہمارے اکابرین نے پہلے ہی طے کر دیا تھا کہ مدارس حکومت کے پیسے سے نہیں، قوم کے پیسے سے چلنے چاہییں۔ ہم آج بھی اسی فیصلے پر قائم ہیں۔”
آسام بھارت کی ان چند ریاستوں میں ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی خاصی نمایاں ہے۔ کل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے، جن میں تقریباً چالیس فیصد یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ مسلمان ہیں۔ ریاست کے 31 میں سے کم از کم نو اضلاع میں مسلم آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
انخلا مہم – اعداد و اثرات کی تلخ تصویر
جمعیت علماء ہند ( میم ) کے جنرل سیکرٹری مولانا حکیم الدین قاسمی اور آسام کے مولانا عبد القادر قاسمی نے روایت کو ایک رپورٹ فراہم کی، جس میں نے انہوں نے آسام میں کل منہدم مساجد و مدارس کی تعداد لکھی ہے، ان کے مطابق نومبر 2023 سے جولائی 2025 تک آسام میں سرکاری انخلا مہم کے دوران مساجد اور مدارس کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا۔
آسام میں سنہ 2023ء سے 2025 ء کے درمیان بڑے پیمانے پر بے دخلی کی کارروائیاں ہوئیں۔ اس عرصے میں ریاست کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی بستیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل گیارہ ہزار ایک سو تراسی خاندان اجڑ گئے، جن کی مجموعی آبادی ستتر ہزار تین سو اناسی تھی۔
ان کارروائیوں کا دائرہ صرف گھروں تک محدود نہیں رہا۔ مساجد، مدارس، مکاتب، عیدگاہیں اور قبرستان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔ دو برس کے دوران 48 مساجد، 75 مکاتب، 11 مدارس، 22 عیدگاہیں اور 15 قبرستان گرائے گئے یا متاثر ہوئے۔
سب سے بڑی کارروائی گوالپارا، دھوبری اور گولاگھاٹ اضلاع میں ہوئیں جہاں ہزاروں خاندانوں کو بے دخل کیا گیا اور درجنوں مذہبی ادارے مسمار کر دیے گئے۔ نالباری اور وشوناتھ میں بھی سینکڑوں خاندان متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ وابستہ مساجد و مدارس ختم کر دیے گئے
۔ رپورٹ کے مطابق یہ ادارے زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں میں تھے، خاص طور پر بنگالی نژاد مسلمانوں کی بستیوں میں۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ انہدامی کارروائیوں میں امتیازی رویہ اپنایا گیا، کیونکہ انہی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ دوسری برادریوں کی بستیوں کو چھوڑ دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بھی سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ اب تک ریاست بھر میں 4,449 بیگھہ زمین جو مساجد، مکاتب اور مدارس سے متعلق تھی، خالی کرائی جا چکی ہے۔ ان کے مطابق یہ سب "لینڈ جہاد” کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔
آسام میں مدارس کی سرکاری حیثیت کے خاتمے کا یہ سلسلہ ایک لمبی تاریخی روایت کو بدل رہا ہے۔ ابتدا نصاب میں شمولیت سے ہوئی تھی، پھر سرکاری حیثیت ملی، نصاب میں تبدیلیاں ہوئیں، اور آخرکار ایک قانون کے ذریعے دینی تعلیم کے باب کو ہی ختم کر دیا گیا۔ آج 1281 مدارس "مڈل انگلش اسکولز” کہلاتے ہیں، آسام میں بے دخلی اور انہدامی کارروائی ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دو برس کے اندر ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور ان کے ساتھ ان کی دینی و سماجی شناخت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ یہ صورتحال ریاست میں مسلمانوں کے مستقبل اور ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا کرتی ہے۔
