اتراکھنڈ میں مدارس کی سیلنگ: دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ نے قانونی کارروائی کی پیش رفت پر رپورٹ طلب کی
زمینی سطح پر سرگرم افراد نے مجلس شوریٰ میں تفصیلی بریفنگ دی، 214 اداروں پر کارروائی کا انکشاف
(5 اگست 2025، بروز منگل | رپورٹ: روایت ڈاٹ کام)
اتراکھنڈ میں مذہبی تعلیمی اداروں کے خلاف حالیہ سرکاری اقدامات پر دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے، زمینی سطح پر سرگرم افراد کو طلب کیا اور ان سے جاری قانونی کارروائی پر مفصل رپورٹ طلب کی۔ یہ اجلاس 5 اگست 2025، بروز منگل کو دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہوا، ان کی جانب سے موجودہ صورتحال، عدالتی پیش رفت، اور حکومتی اقدامات سے متعلق تفصیلی رپورٹ شوریٰ کے اراکین کے سامنے پیش کی گئی۔

وفد کے مطابق، ریاستی حکومت نے اب تک 214 اداروں کو مختلف اضلاع میں سیل کیا ہے، جن میں دہرادون، ہریدوار، ادھم سنگھ نگر، ہلدوانی اور رام نگر شامل ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ادارے اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ نہیں ہیں۔
اس فیصلے کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا، تاہم وہاں تکنیکی بنیادوں پر عرضی کو مسترد کر دیا گیا۔ بعد ازاں معاملہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں مکتب (ابتدائی سطح کے مدارس) کی تعریف اور منظوری سے متعلق معلومات RTI کے تحت حاصل کی گئیں۔
مدرسہ بورڈ نے تحریری طور پر واضح کیا کہ بورڈ سے منظوری مدارس کے لیے ضروری ہے، مکاتب کے لیے نہیں۔ اس وضاحت کی بنیاد پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، جس کے نتیجے میں پچاس کے قریب مکاتب پر سے سیلنگ ہٹائی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس قانونی جدوجہد میں متعدد وکلا کی خدمات لی گئی ہیں، جن میں فضیل ایوبی، طلحہ عبد الرحمن، ایم آر شمشاد، یوسف (نینی تال)، اور عمران علی خان شامل ہیں۔ ان کی مشاورت سے مزید دستاویزات، جیسے نوٹسز، مدرسہ بورڈ کے جوابات، اور متعلقہ اداروں کے کاغذات، مجلس شوریٰ کو پیش کیے گئے۔
رٹ داخل، مزید سماعت متوقع
شوریٰ کو مطلع کیا گیا کہ متأثرہ اداروں کی طرف سے ایک جامع رٹ پٹیشن نینی تال ہائی کورٹ میں داخل کر دی گئی ہے، جس پر آئندہ دنوں میں سماعت متوقع ہے۔
یہ واقعہ کئی سطحوں پر بحث کا متقاضی ہے: کیا مذہبی ادارے ریاستی منظوری کے بغیر چل سکتے ہیں؟ کیا ریاستی مداخلت قانونی تقاضوں کے مطابق ہو رہی ہے؟ اور کیا تمام فریقوں کو سنا جا رہا ہے؟ ان سوالات کے جواب نہ صرف عدالتی فیصلوں سے واضح ہوں گے بلکہ سماج میں تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور حکومتی ضابطہ کے توازن پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
