اتراکھنڈ میں مدرسہ بورڈ ختم کرنے کے فیصلے پر شدید ردِ عمل
چنئی / دہرادون (روایت نیوز ڈیسک، 15 اکتوبر 2025)
تمل ناڈو کی منیتھنیا مکل کچی (ایم ایم کے) کے صدر اور رکن اسمبلی پروفیسر ایم۔ ایچ۔ جواہراللہ نے اتراکھنڈ حکومت کے اس فیصلے کی سخت مذمت کی ہے جس کے تحت ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ختم کر کے تمام مدارس کو نئے قائم شدہ اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ کے تحت لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ انہوں نے اسے ’’آئینی ضمانتوں کی صریح خلاف ورزی‘‘ اور ’’اقلیتی حقوق پر براہِ راست حملہ‘‘ قرار دیا۔

پروفیسر جواہراللہ نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ اُن آئینی تحفظات کو کمزور کرتا ہے جو اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم اور چلانے کا حق دیتے ہیں۔ حکومت مدارس کو مضبوط اور جدید بنانے کے بجائے ان کی الگ شناخت مٹانا چاہتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق تمام اقلیتی اداروں کو ریاستی بورڈ کے تحت لانے کا فیصلہ ’’امتیازی‘‘ اور ’’غیر آئینی‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مدارس کے خودمختار ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے ختم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 30 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔‘‘
پروفیسر جواہراللہ نے اس فیصلے کو ’’قابلِ مذمت‘‘ اور ’’ہندوستان کے کثیرالثقافتی تشخص پر کاری ضرب‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے مدارس کی تعلیمی خودمختاری، نصابی آزادی اور تاریخی شناخت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’مدارس نے نہ صرف مذہبی بلکہ عصری تعلیم میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ مختلف طبقات کے لیے علم و تربیت کے مراکز رہے ہیں۔‘‘ جواہراللہ نے یاد دلایا کہ ’’ہندوستان کے کئی ممتاز رہنما اور دانشور — جیسے ڈاکٹر ذاکر حسین، فخرالدین علی احمد، ڈاکٹر راجندر پرساد، منشی پریم چند اور راجہ رام موہن رائے — ابتدائی طور پر مدارس میں تعلیم یافتہ رہے۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ ’’اصلاحِ تعلیم مکالمے، شمولیت اور تنوع کے احترام کے ذریعے ہونی چاہیے، نہ کہ جبری اقدامات سے جو اقلیتی اداروں کی شناخت مٹا دیں۔‘‘ جواہراللہ نے حکومتِ اتراکھنڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ’’رجعت پسندانہ فیصلے‘‘ کو واپس لے اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے نمائندوں سے مشورہ کرے، تاکہ مدارس کی جدید کاری آئینی اصولوں، ثقافتی وراثت اور علمی آزادی کے مطابق کی جا سکے، انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان کی طاقت اس کے تنوع میں ہے۔ اگر اس تنوع کو مٹانے کی کوشش کی گئی تو جمہوریت کی بنیادیں کمزور پڑ جائیں گی۔‘‘
دوسری جانب، جمعیۃ علماء ہند کے مطابق ریاست بھر میں اب تک 215 مدارس سیل کیے جا چکے ہیں۔ جنوری 2025 سے یہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ تنظیم کے مطابق ان میں سے تقریباً 30 مدارس عدالت یا مذاکرات کے بعد دوبارہ کھولے گئے ہیں، وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اپنے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ یہ ادارے ’’غیر رجسٹرڈ‘‘ ہیں اور مدرسہ بورڈ کے ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں پر ’’مدرسہ جہاد‘‘ اور ’’تعلیم جہاد‘‘ کے الزامات بھی عائد کیے ہیں اور متعلقہ مدارس کی فنڈنگ کی جانچ کے احکامات دیے ہیں۔
ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ حکومت کا یہ نیا قانون ’اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ 2025‘ مدارس کے خودمختار تعلیمی نظام کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت تمام اقلیتی اداروں کو ریاستی ایجوکیشن بورڈ سے منسلک کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، جسے مختلف مسلم تنظیمیں آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھتی ہیں۔
