اروناچل میں ’غیر قانونی مدارس‘ کا الزام بے بنیاد ۔ مسلم برادری کا دو ٹوک مؤقف؛ اصل مسئلہ غیر قانونی تارکینِ وطن، مسلمان نہیں
ایتانگر، 14 نومبر۔ روایت نیوز ڈیسک:
اروناچل پردیش میں ’غیر قانونی مدارس‘ اور ’غیر قانونی مسجد تعمیرات‘ کے الزامات کے بعد مسلم برادری نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ریاست میں ہر مسلم ادارہ قوانین کے مطابق چل رہا ہے۔
جمعرات کو اروناچل پریس کلب میں کیپٹل جامع مسجد کے پی آر او گیاہ لیمپیہ سلطان نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اروناچل کے مسلمان ہمیشہ قانون کے پابند رہے ہیں اور ان پر لگائے گئے حالیہ الزامات حقیقت پر مبنی نہیں۔

سلطان نے کہا، “مسجد ہماری عبادت گاہ ہے۔ اسے تنازع میں نہ لایا جائے۔ مسلمان برسوں سے یہاں آباد شہری ہیں، غیر قانونی تارکینِ وطن کا مسئلہ الگ ہے، اسے ہم سے نہ جوڑا جائے۔”
انہوں نے کہا کہ جن اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ سب قانونی دستاویزات اور ریاستی اصولوں کے مطابق قائم ہیں۔
سلطان نے زور دیا کہ ’’غیر قانونی مدرسوں‘‘ کی اصطلاح بلا ثبوت استعمال کی جا رہی ہے، جبکہ اب تک کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا جس میں کسی مدرسے یا مسجد کی غیر قانونی تعمیر ثابت ہوئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ اروناچل کی مقامی آبادی اور مسلمانوں کے درمیان برسوں سے خوشگوار تعلقات رہے ہیں، اور ایسے الزامات اس ماحول کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سلطان نے درخواست کی کہ ادارے، تنظیمیں اور افراد ذمہ داری کے ساتھ بات کریں اور ایسے بیانات نہ دیں جو غلط فہمیاں بڑھائیں۔
بدھ کو اروناچل پردیش انڈیجینس یوتھ آرگنائزیشن (APIYO) کے صدر تارو سونم لیاک نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی تنظیم کسی مذہب یا مذہبی ادارے کے خلاف نہیں۔
لیا ک نے کہا کہ ان کی مہم کا مقصد صرف غیر قانونی تارکینِ وطن اور بے اجازت تعمیرات سے متعلق مسائل اجاگر کرنا ہے۔ تاہم اسی دوران انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اٹانگر کیپیٹل ریجن میں کچھ مذہبی ڈھانچوں کی غیر قانونی تعمیرات کے معاملات موجود ہیں، جن کی جانچ کے لیے تنظیم نے حکام کو یادداشتیں دی ہیں۔
حکام کی سطح پر اب تک ایسی کسی مسجد یا مدرسے کے غیر قانونی ہونے کی باضابطہ تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔
لیا ک نے بتایا کہ ان مسائل کو اٹھانے کے بعد انہیں کچھ دھمکی آمیز فون کالیں موصول ہوئیں اور اس بارے میں انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ پولیس کے مطابق معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔
مسلم برادری کا کہنا ہے کہ ریاست کی روایتی ہم آہنگی کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ غیر مصدقہ الزامات کے بجائے شفاف طریقہ کار اپنایا جائے اور ہر معاملے کو قانون کے مطابق دیکھا جائے۔
سلطان نے کہا کہ مسلمان قانون، امن اور بھائی چارے کو سب سے مقدم رکھتے ہیں اور اروناچل میں پرامن ماحول برقرار رکھنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
