یہ تخیلاتی منظر خبر کی تفہیم کے لیے ہے۔
تحقیق و رپورٹ: غالب شمس
بہرائچ کے ایک مدرسے کی ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر غیر معمولی طور پر وائرل ہوئی۔ بتایا گیا کہ ایک غیر رجسٹرڈ مدرسے میں 40 نابالغ بچیاں ٹوائلٹ میں بند پائی گئیں۔ ہر بڑی انگریزی نیوز ایجنسی نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا، یوٹیوب پر ویڈیوز نے لاکھوں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور اس طرح تاثر دیا گیا کہ گویا اس مدرسے میں تعلیم کے علاوہ کوئی اور سرگرمی جاری تھی۔

روایت ڈاٹ کام کی ٹیم نے خبر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنی آزاد جانچ شروع کی تاکہ سچائی عوام تک پہنچے۔ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ متعلقہ مدرسے میں دینی تعلیم ہی دی جا رہی تھی۔ اصل واقعہ یہ تھا کہ جب تفتیشی افسران اچانک معائنہ کے لیے پہنچے تو مدرسہ انتظامیہ گھبراہٹ میں لڑکیوں کو تیسری منزل پر واقع بیت الخلا میں چھپا بیٹھی۔
یہ عمل ایک سنگین غلطی اور انتہائی احمقانہ حرکت تھی۔ اگر انتظامیہ کو معلوم تھا کہ غیر منظور شدہ اداروں پر کارروائی چل رہی ہے تو بہتر ہوتا کہ وہ مدرسہ خود ہی بند کر دیتے۔ اور اگر وہ اسے اپنا قانونی حق سمجھ رہے تھے تو پھر بچیوں کو بیت الخلا میں چھپانے جیسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس اور میڈیا کے سامنے پورا منظر نامہ آگیا، ویڈیو وائرل ہوئی، اور مخالفین کو مدرسہ مخالف بیانیہ مضبوط کرنے کا بہترین موقع مل گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر ہمارے ذمہ دار علما بھی ایسی کوتاہیوں کے سبب پورے طبقے کو شرمندگی کی صورت میں نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق:
"افسران نے والدین سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ بچیاں مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں یا کسی اور مقصد کے لیے وہاں رکھی گئی تھیں۔”
یہاں ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے، اور وہ ہے مالی بے ضابطگی۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام سا مولوی اچانک مالی طور پر اتنا مضبوط کیسے ہو جاتا ہے؟ میں کسی مخصوص ادارے کی نشاندہی نہیں کر رہا، مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا ایک المیہ بن چکا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا نے اسی رپورٹ میں مزید لکھا:
"مقامی باشندوں نے سوال اٹھایا کہ مدرسے کے منتظم کی دولت میں اچانک اضافہ کیسے ہوا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خلیل احمد، جو دس برس پہلے جوتے چپل کی ایک چھوٹی دکان چلاتا تھا، اب تین منزلہ عمارت اور 24 دکانوں کا مالک ہے۔”
یہ تمام حقائق کے پیش منظر کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اہل مدارس کو اب حکومتی دباؤ کا سامنا کرنے کے بجائے اندرونی احتساب کی بھی شدید ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کے مراکز کو اگر معاشرے میں اپنی ساکھ اور اعتبار برقرار رکھنا ہے تو انہیں شفافیت، مالی دیانت اور قانونی تقاضوں کی پاسداری کو ترجیح دینا ہوگی۔ بصورت دیگر ایک چھوٹی سی لغزش بھی پورے نظامِ تعلیم کے خلاف پروپیگنڈے کو تقویت دیتی رہے گی۔
