جعلی نوٹ ریکیٹ کا اصل چہرہ اور میڈیا کی جلدبازی
غالب شمس
کھنڈوا میں مدرسے سے جعلی نوٹوں کی برآمدگی کے بعد معاملہ اچانک شدت اختیار کر گیا تھا۔ ابتدائی خبروں میں مدرسے اور اس کے امام کو نشانہ بناتے ہوئے واقعے کو مسلم اداروں کے ساتھ جوڑنے کی پوری کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جس نے ماحول میں غیر ضروری تناؤ پیدا کیا۔ بعد کی تحقیقات نے اس پورے بیانیے کی بنیاد ہی بدل دی۔
کھنڈوا پولیس کے مطابق جعلی نوٹوں کے اس ریکیٹ کا ماسٹر مائنڈ کوئی مولانا نہیں بلکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر پرتیک نولکھے ہے، جو پہلے سرکاری اسپتال میں میڈیکل آفیسر رہ چکا ہے۔ پولیس نے اسے اس کے دو ساتھیوں گوپال عرف راہل اور دِنیش گور کے ساتھ گرفتار کیا ہے۔ یہ وہی گینگ ہے جس کے سبب دو نومبر کو پیٹھیا گاؤں کے مدرسے سے انیس لاکھ اٹھہتر ہزار روپے کے جعلی نوٹ ملے تھے۔
ایڈیشنل ایس پی مہندر تارانیکر نے بتایا کہ ڈاکٹر نولکھے نے بھوپال کی گوکل دھام سوسائٹی میں کرائے کے مکان پر ٹریول ایجنسی کا بورڈ لگا کر جعلی نوٹوں کی تیاری کا بڑا انتظام کر رکھا تھا۔ گھر کے اندر ہائی کوالٹی پرنٹرز، الیکٹرانک آلات اور متعلقہ سامان موجود تھا۔ پولیس نے موقع سے بڑی مقدار میں جعلی کرنسی، دستاویزات، بتیس اے ٹی ایم کارڈ، پندرہ چیک بُک اور دیگر اشیا ضبط کی ہیں۔
ملزمان کے قبضے سے بھی بڑی مقدار میں سامان ملا۔ ڈاکٹر نولکھے کے پاس سے پانچ سو کے تیرہ جعلی نوٹ، سات موبائل فون، لیپ ٹاپ، اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈ ملے۔ گوپال عرف راہل کے پاس سے چھ جعلی نوٹ، دو موبائل فون، ڈرائر مشین اور بیس اے ٹی ایم کارڈ ملے، جبکہ دِنیش گور کے پاس سے پانچ سو کے سترہ جعلی نوٹ برآمد کیے گئے۔ عدالت نے تینوں ملزموں کو پولیس ریمانڈ پر دے دیا ہے تاکہ نیٹ ورک کے باقی حصوں تک پہنچا جا سکے۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈاکٹر پرتیک نولکھے 2019۔20 میں ضلع برہانپور کے اسپتال میں آر ایم او تھا۔ اس کے خلاف فرضی خریداری اور جعلی بلوں کے معاملات میں شکایات درج ہوئیں، جس کے بعد وہ کھنڈوا جیل بھیجا گیا۔ جیل ہی میں اس کی ملاقات امام زبیر انصاری سے ہوئی۔ دونوں نے جیل سے نکلنے کے بعد جعلی نوٹوں کا کاروبار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ بعد میں گوپال راہل اور دِنیش گور بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور یہ نیٹ ورک مدھیہ پردیش سے مہاراشٹر تک پھیل گیا۔
اس پورے معاملے میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ جیسے ہی مدرسے کا نام سامنے آیا، کچھ میڈیا پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعے کو جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رخ دینے کی کوشش کی۔ امام اور مدرسے کو نشانہ بنا کر ایسا ماحول بنایا گیا جیسے پورے منصوبے کا تعلق کسی مذہبی ادارے سے تھا۔ جب پولیس نے بتایا کہ ماسٹر مائنڈ دراصل ایک ہندو ڈاکٹر ہے تو وہی شور اچانک تھم گیا۔
کھنڈوا جعلی نوٹ کیس ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ کس طرح مخصوص عناصر ہر واقعے کو مسلم اداروں، مدرسوں اور ائمہ کے خلاف استعمال کرنے کی جلدی میں رہتے ہیں، جبکہ حقائق اکثر اس کے برعکس سامنے آتے ہیں۔ اس کیس کی تحقیق نے صاف کر دیا کہ اصل مجرم کون ہے اور پورا نیٹ ورک کہاں سے چل رہا تھا۔
