جھارکھنڈ ہائی کورٹ برہم: مدرسہ اساتذہ کو پنشن و گریجویٹی نہ دینے پر حکومت کو نوٹس، اعلیٰ افسران ذاتی حیثیت میں طلب
رانچی — جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ریٹائرڈ مدرسہ اساتذہ کو پنشن اور گریجویٹی نہ ملنے پر ریاستی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے واضح کہا کہ محکمہ تعلیم نے عدالتی احکامات کو دانستہ نظرانداز کیا، جو انتظامی غفلت نہیں بلکہ قانون کی حکم عدولی ہے۔
جسٹس انندا سین کی بنچ میں توہینِ عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں ایجاب الحق اور دیگر اساتذہ نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے 2014 کے بعد ریٹائر ہونے والے اساتذہ کو پوسٹ ریٹائرمنٹ فوائد سے محروم رکھا۔ جب معاملہ عدالت میں گیا تو 24 اکتوبر 2014 کو ہائی کورٹ نے حکومت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور تمام اہل اساتذہ کو پنشن و گریجویٹی جاری کرنے کی ہدایت دی۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ فیصلہ آنے کے باوجود 10 سال میں بھی عملاً کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ریاست نے عدالت میں حلف نامہ جمع کراتے ہوئے کہا کہ واجبات ادا کر دیے گئے ہیں، مگر اساتذہ نے دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں آج تک ایک روپیہ نہیں ملا۔
عدالت نے 13 جون 2024 کے حکم پر عدم عمل درآمد پر سنجیدگی سے نوٹس لیا اور سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے پرنسپل سیکریٹری راہل پُروار اور ڈائریکٹر سیکنڈری ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کو اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ دونوں افسران سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ عدالتی حکم کی جان بوجھ کر خلاف ورزی پر ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
ایجاب الحق اور دیگر متاثرہ اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکام نے نہ صرف عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا بلکہ عدالت کو غلط بیانی کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے تناقض پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے دونوں افسران کو تفصیلی اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اگلی سماعت میں حکومت کو واضح موقف دینا ہوگا کہ مدرسہ اساتذہ کو پنشن اور گریجویٹی کب اور کیسے ادا کی جائے گی۔ عدالتی کارروائی کے بعد امید بڑھ گئی ہے کہ معاملہ برسوں بعد حل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
