غلط فہمی یا پروپیگنڈہ؟ افغان وزیرِ خارجہ کی پریس کانفرنس پر نیا تنازع
(نئی دہلی، 10 اکتوبر) روایت نیوز ڈیسک
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ ہندوستان کے دوران جمعہ کو دہلی میں ہونے والی پریس کانفرنس ایک غیر ضروری تنازع کا باعث بن گئی، جب بعض میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ خواتین صحافیوں کو شرکت سے روکا گیا ہے۔ تاہم بعد میں ہندوستانی وزارتِ خارجہ (ایم ای اے) نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے وزارتِ خارجہ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

وزارت نے اپنے بیان میں کہا: ’’دہلی میں 10 اکتوبر کو افغان وزیرِ خارجہ کی پریس کانفرنس میں وزارتِ خارجہ کا کوئی مداخلت یا کردار نہیں تھا۔ خواتین صحافیوں کی عدم شرکت کا فیصلہ صرف منتظمین کا تھا، وزارتِ خارجہ کی اس میں کوئی شمولیت نہیں تھی۔‘‘
یاد رہے کہ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی جمعرات کو سات روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے تھے۔ اپنے دورے کے دوسرے دن انہوں نے وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر سے ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تجارت، انسانی امداد اور سلامتی تعاون جیسے اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ متقی نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور یہ کہ کابل جلد اپنے سفارت کاروں کو دہلی بھیجے گا تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوں۔
دریں اثنا، بعض حلقوں میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ افغان وزیر نے خود خواتین صحافیوں پر پابندی عائد کی تھی۔ تاہم جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے وضاحت کی کہ امیر خان متقی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کے مطابق:
’’میں نے خود افغان وزیر سے اس بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں رکھا۔ اگر پابندی ہوتی تو وہ اس سے قبل خواتین صحافیوں کو انٹرویو ہی نہ دیتے۔‘‘
ذرائع کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران ہندوستانی انتظامیہ نے ازخود یہ اہتمام کیا کہ کوئی خاتون رپورٹر موجود نہ رہے، جس کے بعد یہ بات غلط طور پر افغان وزیر سے منسوب کر دی گئی۔
قابلِ ذکر ہے کہ راہل گاندھی سمیت بعض سیاسی رہنما بھی اسی غلط فہمی کی بنیاد پر تنقید کرتے نظر آئے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا مظہر ہے کہ سوشل میڈیا کے شور میں غیر مصدقہ اطلاعات اکثر سفارتی غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں
