قاری محمد عارف — معلمِ قرآن و خادمِ ملت
اقدس عارف
دردمندِ قوم و ملت قاری محمد عارف قدس سرہ ایک عظیم شخصیت اور امتیازی خصوصیات کے حامل انسان تھے، آپ نے مختصر زندگی پائی، اور قابل قدر کارنامے انجام دیے، عملی میدان میں گہرے نقوش چھوڑے، درسِ نظامی باقاعدہ مکمل نہ کرنے کے باوجود اکابر کی تربیت نے ان کی علمی سمت متعین کی۔ آپ ایک عظیم مربی، کامیاب معلم اور فکر مند قائد تھے۔ آپ کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، آپ نے گمنام زندگی بسر کی، اور عمر بھر آپ کا یہ شیوہ رہا: گوشے میں قفس کے آرام بہت ہے۔

آپ کی مختصر سوانحی زندگی عزیمت کا نمونہ اور نئی نسل کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
ولادت و بچپن
آپ کی ولادت مرزا پور پول میں ستمبر 1970ء میں ایک مذہبی خانوادہ میں ہوئی۔
یہ گاؤں اتر پردیش کے علمی خطہ سہارنپور میں رائے پور کے قریب واقع ہے۔
آپ کا سلسلۂ نسب محمد عارف بن حافظ ناظم بن حافظ عظیم الدین ہے،
آپ کے والدِ محترم حافظ ناظم بھی علم دوست اور قرآنِ کریم کے مقبول استاد تھے، آپ کے دادا حافظ عظیم الدین اور ان کے بھائی قاری نظام الدین علاقے کی مشہور دینی شخصیات میں شمار ہوتے تھے، اور اپنی دینی مذہبی خدمات کی وجہ سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
یہی خاندانی بزرگی اور وجاہت قاری محمد عارف صاحب نے ورثے میں پائی، اسی طرح ان کی تربیت میں ان کی پھوپھی حمیدہ خاتون کا اہم کردار رہا ہے، نیز آپ کی ابتدائی تعلیم انہیں کی رہینِ منت ہے۔
حفظِ قرآن کریم
حفظ قرآنِ کریم کے لیے مدرسہ فیضانِ رحیمی مرزاپور ( سہارنپور ) میں داخل کیا گیا۔ آپ نے قرآن کے زیادہ پارے وہیں حفظ کیے، پھر مدرسہ فیضِ ہدایت رحیمی رائے پور میں حافظ ہارون صاحب نور اللہ مرقدہ کے پاس حفظِ قرآن کی تکمیل ہوئی۔
بعد ازاں حضرت مولانا عبد السّتار صاحب بوڑیوی مد ظلہ العالی کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوگئے، ان کی خدمت میں رہتے ہوئے دو سال تجوید و قراءت پڑھی، حضرت بوڑیوی کی ہدایت پر علم و ادب کی کتابیں زیر نظر رہیں۔ اور حضرت کی توجہ نے آپ میں وہ صفات پیدا فرمائیں جو آئندہ عملی زندگی میں معاون ہوئیں۔
عملی زندگی :
1408ھ مطابق 1987ء میں مدرسہ ضیاء القرآن بوڑیہ سے رسمی فراغت ہوئی، اور حضرت بوڑیوی کے مشورے سے 12 دسمبر 1989ء بحیثیتِ مدرس مدرسہ مصباح الغفور اعظم پور دہپہ غازی آباد تشریف لے گئے، جہاں آپ حفظ و قراءت کے استاد مقرر ہوئے، اور جامع مسجد میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے اور خطابت کا نازک فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
جامع مسجد سے متصل زمین خرید کر اس کی توسیع کا کام انجام دیا، اسی کے شایانِ شان خوبصورت دیدہ زیب صدر دروازہ تعمیر کرایا۔
ان مختصر ایام میں آپ کی حسنِ کار کردگی کی وجہ سے کمیٹی نے ادارے کی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی، اس وقت اس مدرسے کی نوعیت ایک پرائمری اسکول کی تھی، عصری تعلیم کا زور تھا، جہاں تقریباً سات سو طلبہ زیرِ تعلیم تھے، البتہ قاری محمد عارف صاحب کے خلوص اور خاموش جد و جہد سے وہاں دینی ماحول پروان چڑھا، اور ان کے مساعی جمیلہ سے حفظ کا درجہ قائم ہوا۔ گاؤں کی سیاست اور جابجا رکاوٹوں کے باوجود آپ کی اعلیٰ ظرفی اور حکمتِ عملی نے اسے سہل الحصول بنادیا۔
مدرسہ سے علیحدگی:
گاؤں کی داخلی کشمکش کے باعث آپ 1996 میں اس سے علیحدہ ہوئے، بعد ازاں اہل قریہ کے اصرار اور مشائخ کی ہدایت پر واپس آئے اور اسی بے نیازی اور بے لوثی کے ساتھ انتظامِ مدرسہ میں جٹ گئے، مدرسہ پرانے تعلیمی منہج پر لوٹ آیا، انہوں نے ذاتی ڈائری میں لکھا ہے کہ ” نماز عصر کے وقت ہم لوگ دہپہ پہنچ گیے، پورے گاؤں میں خوشی و مسرت کی لہر پھیل گئی، عورتیں، بچے فرطِ مسرت سے کوٹھوں پر چڑھ کر استقبال کرنے لگے”.
تغیر حالات کے سبب سنــہ 2002ء میں مستقل طور پر کنارہ کشی اختیار کی اور آپ کے ہمراہ مدرسہ کے اکثر عملہ نے بھی مدرسہ کو خیر آباد کہا۔
دہپہ میں آپ کی خدمات
آپ ( قاری محمد عارف ) کی نظامت میں مدرسہ کے بنیادی شعبوں میں نئی جان آگئی، آپ کا دورِ نظامت اس مدرسے کا عہدِ زریں ہے جو تقریباً ایک دہائ پر محیط ہے، آپ نے بحیثیتِ ناظم ادارہ کے تمام شعبہ جات کی ترقی، استحکام اور اس کو وسعت دینے میں اہم رول ادا کیا، آپ کی فہم و فراست اور خلوص وللہیت نے اس بے جان پودے کو ایک تناور درخت بنادیا۔
مدرسے کی موجودہ عمارت طلبہ کی کثیر اور بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نا کافی تھی، اپ کی نظامت میں اس عمارت کی دوسری منزل تعمیر ہوئی، اساتذہ وملازمین کی کمی ہوئی، تو حسبِ ضرورت نئے اساتذہ کا تقرر کیا۔
آپ کے دورِ نظامت میں عمارت کی توسیع، تدریس میں استحکام اور حفظ کے باقاعدہ درجات قائم ہوئےعوام میں علماء کی قدر دانی میں اضافہ ہوا۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت آج بھی وہاں نمایاں ہے۔
پاج رائے پور میں چھ ماہ
جون 2003ء میں حضرت مولانا محمد طاہر صاحب (شیخ الحدیث: فیضِ ہدایت رائے پور) اور مولانا عبد الرشید صاحب (مہتمم: مدرسہ فیضانِ رحیمی مرزاپور) کے حکم سے رائے پور (پاج) میں عارضی طور پر امامت و خطابت سپرد ہوئی؛ بزرگوں کی ہدایت پر چھ ماہ بعد اپنے گاؤں مرزاپور واپس آگئے۔
جامع مسجد مرزاپور میں منصب امامت:
3 ذی قعدہ 1424ھ مطابق 27 دسمبر 2003 ء بروز جمعہ کو جامع مسجد مرزاپور پول میں منصبِ امامت کے لیے مقرر ہوۓ، یہاں آپ کی مدتِ امامت پانچ برس پر محیط ہے، اور ان پانچ سالوں میں آپ نے قابلِ قدر کارنامے انجام دیے، انتظامی صلاحیت اور فطری لیاقت نے یہاں بھی امامت تک محدود نہ رکھا، اور مسجد کی توسیعی منصوبے اور تزئینی کام ان کی کوشش سے انجام پائے، امامت میں ایک سال گزرنے کے بعد مدرسہ فیض العلوم مرزاپور میں بحیثیت استادِ حفظ وابستہ ہوگئے ۔
مدرسہ فیض العلوم میں تقرر
جامع مسجد کی امامت کے ساتھ شوال المکرم 1424 مطابق نومبر 2004 سے مدرسہ فیض العلوم (دارِ قدیم) میں حفظِ قرآن کی تدریس سے جڑے۔ امامت کے فرائض انجام دیتے، اور صبح شام مدرسہ میں پڑھاتے تھے، پھر اسی مدرسہ کی نئی عمارت بنام "دارِ جدید” میں منتقل ہونے کے سبب مسجد سے فاصلہ بڑھ گیا، امامت اور تدریس کی دوہری ذمہ داری کے سبب جامع مسجد کی امامت سے استعفیٰ دیدیا، اور یکسوئی کے ساتھ خدمت قرآن میں مشغول ہوگئے، اور تادمِ حیات قرآن کی شیفتگی طلبہ میں منتقل کرتے رہے، اس مدت میں ایک بڑی تعداد نے آپ سے قرآنِ کریم حفظ کیا، جو آج بھی مختلف علاقوں میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جمعیۃ علماء سے وابستگی
قاری محمد عارف صاحب کو ملی کاموں میں بڑی دلچسپی تھی، اور ان کے لیے حد سے زیادہ فکر مند رہا کرتے تھے، جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی اسی جذبۂ شوق کا نتیجہ ہے، اور اس کے لیے آپ ہمہ تن مصروف رہتے، اجتماعی پروگرام میں شرکت، اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، علاقے میں جہاں جمیعت کے بینر تلے کوئ ضرورت پیش آئی، آپ کی موجودگی یقینی ہوتی۔
قاسم پور آتش زدگی میں فوری امداد اور 2013ء مظفرنگر فسادات کے متاثرین تک سامان کی رسائی انہی کی مساعی سے ممکن ہوئی۔
محاسن و مکارم:
قاری محمد عارف صاحب عالی صفت انسان تھے، اور ہزاروں خوبیوں کے مالک بھی۔ فرائض و نوافل کا اہتمام اور سنن کی پابندی خوب تھی۔
بزرگوں سے تعلقات:
قاری محمد عارف صاحب کو اکابر و اسلاف سے فطری لگاؤ اور قلبی وابستگی تھی، بزرگوں کی مجالس میں بکثرت شریک ہوتے، اور اسلاف واکابر کے مسلک و منہج کی پیروی کو ضروری خیال کرتے، مولانا عبد الستار بوڑیوی مدظلہ سے آپ کا اصلاحی تعلق آخری دم تک قائم رہا۔ قاری صاحب حضرت کے بڑے معتقد تھے، اور وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، مولانا بھی آپ کے ساتھ بڑی شفقت کا معاملہ فرماتے تھے، آپ کے انتقال پر انہوں نے گہرے صدمے کا اظہار فرمایا تھا ۔
مطالعہ کا شوق:
“کتب بینی ان (قاری محمد عارف ) کا محبوب مشغلہ تھا؛ ذاتی کتب خانے میں دینی و ادبی ذخیرہ رکھا اور ڈائری میں اقتباسات و تاثرات نوٹ کرتے۔
کتاب کے بیاضی صفحہ پر نام، پتہ کے ساتھ قیمت، کتب خانے کا نام، تاریخِ شراء اور کہیں کہیں کتاب خریدنے کی وجہ بھی درج فرماتے، نداۓ شاہی، تعمیرِ حیات اور الجمیعۃ (ہفت روزہ) وغیرہ ان کے گھر آتا تھا، ان کی ڈائری میں ان رسالوں کے اقتباسات بھی موجود ہیں، کتابوں کا مطالعہ اور ان کو سنبھال کر رکھنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔
ذاتی ڈائری:
قاری محمد عارف صاحب ڈائری لکھنے کا اہتمام کرتے، مطالعے کے دوران کے علمی اشکال و اعتراض کے جوابات کے لیے مختلف دار الافتاء سے رجوع فرماتے، وہ ڈائری کے اوراق میں اپنا حاصلِ مطالعہ، علمی و اخباری تراشے، ملکی احوال، ذاتی مصروفیات، خوش کُن لمحات، غم و اندوہ کے سانحات اور اسفار کی سر گزشتیں قلم بند فرماتے تھے، ان کی کئی ڈائریاں تھیں، لیکن اب صرف دو ڈائری دستیاب ہیں، ایک ڈائری مواد سے پُر اور دوسری میں کچھ کچھ باتیں ہی مرقوم ہیں۔ آپ کی ڈائری حسنِ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ قاری محمد عارف صاحب نہایت خوشخط تھے، اور زود نویس واقع ہوئے تھے۔
زبان وبیان
آپ ( قاری محمد عارف ) کی زبان نہایت ششتہ اور رواں تھی، تعارف کرانے کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، اسی لیے جب بھی مدرسے میں مہمان آتے، تو مدرسہ اور طلبہ کا تعارف بڑی خوش اسلوبی سے کراتے۔ یہ ذمہ داری اکثر آپ ہی کے سپرد کی جاتی تھی۔
قاری محمد عارف صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی، اسی وصف کے باعث وہ مدرسے کے پروگراموں اور تقریبات میں پیش پیش رہتے اور موقع محل کے مطابق نہایت بلیغ خطاب فرمایا کرتے، علاوہ ازیں دیگر پروگراموں میں بھی مدرسے کی نمائندگی فرماتے، اور اپنی گفتگو سے ادارے کا وقار بڑھاتے۔
اخلاق و عادات:
ان ( قاری محمد عارف ) کا اخلاق و کردار بلند اور پاکیزہ تھا۔ بڑوں سے ادب، چھوٹوں سے محبت، اور سب کے ساتھ خیر خواہی و وفاداری کو وہ اپنا شعار بناچکے تھے۔ کسی کا دل توڑنا یا کردار مجروح کرنا ان کی فطرت کے خلاف تھا، مہمان نوازی ان کی فطرت میں رچی بسی تھی۔ گھر کی تنگی اور وسائل کی کمی کے باوجود وہ مہمانوں کو عزت و احترام سے بٹھاتے، اور کھانے میں ایسی برکت ہوتی کہ سب آسودہ ہوجاتے۔شعور و سلیقہ ان کی شخصیت کا امتیازی پہلو تھا، بلکہ اس سلسلے میں نازل مزاج تھے، بزرگوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا، بیماروں کے علاج کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اور ہر وقت خدمت کے لیے حاضر رہنا ان کی محبوب مشغولیت تھی۔ والدین کی خدمت میں بھی وہ مثال قائم کر گئے۔ اپنے والد محترم کی جسمانی خدمت بلا ناغہ کرتے، کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ ان کے سامنے ان کی آواز بلند ہوئ ہوئی ہو۔
قاری محمد عارف صاحب نوجوانوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے، والدین کی ذہن سازی کرتے اور بچوں کو مدرسے کی طرف راغب کرتے، کئی گھرانے ان کی محنت کے نتیجے میں حافظ و عالم بنے۔
شوق حج بیت اللہ:
انہیں حج و عمرے کا بڑا شوق تھا، بارہا عمرے کی سعادت پائی اور اپنے والد محترم کو حج پر بھیجنے کی سعادت بھی حاصل کی، ہر سال گاؤں سے جانے والوں کے اپنی ڈائری میں نام لکھتے، اور شعری انداز میں ان کو خراجِ محبت پیش کرتے۔
لمحہء رخصت
13 اگست 2017ء مطابق 21 ذی القعدہ 1438ھ کو جمیعت علمائے ہند کی طرف سے ہندوستان کے مختلف شہروں اور قصبہ جات میں "امن مارچ” کے عنوان سے ایک ریلی نکلی، جس میں عوام الناس کی کثیر تعداد نے شرکت کی، ہمارے علاقے میں یہ مارچ قصبہ بہٹ میں ہوا، جس میں مرزاپور سے بھی وافر مقدار میں لوگ شامل رہے، قاری محمد عارف صاحب اپنی عادت کے مطابق اس مارچ کے لیے بڑے فعال تھے، ایک دن پہلے جامع مسجد میں اس کا اعلان کیا، مارچ میں شرکت کے لیے لوگوں کی تشکیل کی، اگلے روز علی الصبح تیار ہوکر مدرسے گیے، اور وہیں بہت سے طلبہ اساتذہ اور عوام کے ساتھ بہٹ روانہ ہوے۔
پورے قصبے میں ریلی نکالی گئی اور پھر ایک پیلس میں اختتامی پروگرام رکھا گیا۔ قاری محمد عارف صاحب اپنی طبیعت کے مطابق اس پروگرام میں بھی پیش پیش رہے۔ تلاوت و نعت کے بعد حضرت مولانا طاہر صاحب حفظہ اللہ کے حکم پر سب سے پہلے آپ ہی خطابت کے لیے کھڑے ہوئے۔ خطبے کے بعد درود شریف پڑھا اور مجمع کو بھی پڑھایا۔ حاضرینِ مجلس کے بقول ابھی پانچ یا سات منٹ ہی بول پائے تھے کہ اچانک زبان کی جنبش بند ہوگئی، جسم کی حرکت تھم گئی، اور وہ یوں آہستہ آہستہ آگے کی طرف مائل ہونے لگے جیسے کسی کو کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ اسٹیج سے نیچے گر پڑے۔ لوگوں نے فوراً سہارا دیا اور قریبی اسپتال لے گئے، مگر قضا نے مہلت نہ دی۔ ان کا آخری کلام خطاب ہی رہا، اور پھر مقدر نے مزید کچھ کہنے کی اجازت نہ دی۔ یوں وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یہ تقریباً صبح دس بجے کا وقت تھا۔ سہارنپور اسپتال لے جانے، رسمی کارروائیاں مکمل کرنے اور پھر واپس لانے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ قریب دو بجے یہ مردِ قلندر، جو صبح نہایت عمدہ لباس پہن کر دینی خدمت کے لیے مدرسے روانہ ہوئے تھے اور ایمانی غیرت و حمیت کے ساتھ پروگرام میں شریک ہوئے تھے، اور وہ وہیں خالقِ حقیقی سے جا ملے، عشاء کی نماز کے بعد حضرت مولانا عبد الرشید صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی، ایک بڑے مجمع نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی، اور گاؤں کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
سفرِ زیست میں ہم کہتے ہیں:
یہ حصہ اُن کہانیوں کے لیے ہے جو اخباروں اور تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہ پا سکیں، مگر دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

مولائے حقیقی ان کی قبر کو اپنی رحمت سے ڈھانپے رکھے!
اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے
اس پوری تحریر میں ان کے دہلی آنے جانے اور بہت کم وقت میں دہلی میں مدرسے کا تعارف کرانے کا ذکر نہیں ہے جو کہ ایک بڑا کام تھا بڑے بڑے اداروں کو لوگ 1000 2000 میں ٹال دیتے ہیں لیکن انکے چہرے پر لوگ پیسہ بہاتے تھے اور ہر کسی کے دل میں ان کیلئے جو جگہ تھی شاید کوئی اس کو پر کرنے سکے اس مرد قلندر پر ہزار رحمتیں اور برکتوں کا نزول ہو
اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے ، ان کے لائق بیٹے مفتی اقدس عارف کو ان کی خدمات آگے بڑھانے کی توفیق عطاء فرمائے
ماشاءاللہ
بہت خوب
موصوف کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔