ماضی میں بہار کے مسلمانوں کی تعلیمی و سیاسی بیداری
محمد سجاد
بہار کے مسلمانوں میں باقاعدہ طور پر منظم سماجی اصلاح کی بنیاد وہابی تحریک (68 ـ1822) سے شروع ہوئی ہے، پٹنہ اس کا خاص مرکز رہا ہے، اس تحریک نے غریب کسانوں اور دست کاروں کو بھی منظم کرنے کا کام شروع کیا تھا ، سامراجی حکومت کا عتاب جب شروع ہوا تو اس تحریک سے منسلک بہار کے متعدد رہنماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لیکن اس تحریک کے دوران ہی کئی مکاتب و مدارس قائم کئے گئے ، کئی یتیم خانے اور دست کاری ٹرینینگ مراکز بھی قائم کئے گئے ، دست کاری وٹریننگ پر توجہ غالباً اس وجہ سے دیا گیا کہ نچلے طبقے کے مسلمان زیادہ تر دست کار اور کاریگر تھے، سامراجی لوٹ پر مشتمل غیر متوازن تجارت اور ملک کے اندر ولایتی سامانوں کی ریل پیل کے اثر سے کسان اور دست کار تباہ ہو رہے تھے، نیل کوٹھیوں کے انگریز مالکان نے شمالی ہند میں ایک نئی طرح کی تحریک شروع کر دی تھی، جس کی وجہ سے کسان دست کاروں کی بد حالی بے تحاشہ بڑھ گئی تھی، لہذا ان مسائل کے پیش نظر ادارہ سازی کا جو کام شروع کیا گیا اس سے بعد کے دنوں میں لازمی طور پر تاریخ ساز نتیجہ برآمد ہوئے مثلاً مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ، مذاکرہ علمیہ (آره) دار العلوم احمدیہ ( دربھنگہ ) جیسے اداروں نے تو اتنی ترقی کر لی تھی کہ ان کا اپنا پریس اور اخبار بھی تھا، الہدی ، ایسا ہی ایک رسالہ تھا، اس کے علاوہ کئی جدید تعلیمی ادارے بھی قائم کئے گئے،جیسے اینگلو عربک اسکول (پٹنہ)۔

1857ء میں شیخ بھکاری، پیر علی، راحت علی، پیر بخش جیسے مسلمان رہنما ہی انگریزوں کے خلاف پیش پیش تھے، اس لیے جس طرح ملک گیر سطح پر حکومت کا عتاب مسلمانوں ہی پر زیادہ ہوا ، اسی طرح بہار میں بھی مسلمانوں کو ہی نشانۂ ہدف بنایا گیا ، اس کے بعد ایک خود احتساب کا عمل شروع ہوا، اور سماجی اصلاح و تعلیمی ترقی کو ہی مصحلتا زیادہ بہتر راستہ مانا گیا، اس طرح 19 / انیسویں صدی میں صوبے میں جو مکاتب و مدارس روایتی تعلیم دے رہے تھے، اب ان کا رجحان جدید تعلیم کی طرف ہوا۔
یوں تو بہار کے اندر سب سے پہلا انگریزی کالج 1863ء میں پٹنہ کالج کے نام سے کھولا گیا، لیکن بہار کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی طرف رغبت 1857ء کے پہلے ہی پیدا ہوگئی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت میں متعدد مسلمان اہم عہدوں پر فائز تھے، یعنی بہار کے بیدار مغز مسلم حلقوں کے اندر انگریزی تعلیم کی افادیت و اہمیت کا احساس بہت پہلے پیدا ہو گیا تھا، چنانچہ 1834ء میں ہی سہسرام خانقاہ کے شاہ کبیر الدین نے گورنر جنرل سے یہ درخواست کی تھی کہ سرکار کی جانب سے انگریزی پڑھانے والے استاد کو مدارس میں مقرر کیا جائے حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر تک بہار کے مسلمان انگریزی تعلیم اور سرکاری ملازمت دونوں معاملوں میں اپنے ہم وطن بہاری ہندووں سے آگے بڑھے ہوئے تھے، مگر غدر کے بعد انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر انگریزوں نے ان پر تعلیم اور ملازمت دونوں کی راہیں بند کر دیں، جس کی وجہ سے تعلیم و اقتصادی پہلو سے مسلمان روز به روز گرتے چلے گئے، اور انگریزی داں ، بنگالی ہندو بہار کے اوپر چھانے لگے، لہذا دیگر تعلیم یافتہ افراد ملت کو جدید تعلیم کے لیے آمادہ کرنے لگے، وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ جدید تعلیم کے بغیر سرکاری نوکری ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگئی۔
اس طرح 1860ء کے بعد سے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف علاقوں میں تنظیمیں قائم ہونے لگیں ، اگست 1866ء میں آرہ میں انجمن اسلامیہ نام کی ایک سوسائٹی قائم کی گئی، اس میں جن لوگوں نے اہم ترین رول ادا کیا، ان کے نام ہیں: وارث علی، بابو سورج، خواجہ فخر الدین ، منشی احمد حسین، خدا بخش خاں، وغیرہ لیکن سب سے تاریخ ساز انجمن قائم کرنے والا شخص تھا سید امداد علی ، انہوں نے مظفر پور میں مئی 1868ء میں بہار سائنٹفک سوسائٹی قائم کیا ، اس کے اغراض و مقاصد وہی تھے جو سر سید احمد خاں کے سائنٹفک سوسائٹی کے تھے، اس سوسائٹی کے پانچ سو ممبران تھے، اور اسے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی ، اس سوسائٹی کا ایک پندرہ روزہ اخبار بھی تھا، جسے اخبار الاخیار کہتے تھے، اس سوسائٹی نے مغربی علوم کی کئی اہم کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا، صوبے میں اس کے متعدد اسکول تھے، اس سوسائٹی کی شاخیں گاؤں تک پھیلی ہوئی تھیں اور نہایت ہی فعال حالت میں تھیں ، مثلاً جنت پور گاؤں میں آج بھی اسکول اور ڈگری کالج موجود ہے، اس سوسائٹی نے 1871ء میں مظفر پور میں ایک کالجیٹ اسکول بھی قائم کیا جو بعد میں بہار کے اہم ترین کالجوں میں شمار کیا جانے لگا، یہی کالج اب لنکٹ سنگھ کالج کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1869ء مظفر پور میں دوسری عظیم انجمن تہذیب قائم کی گئی، اس کا مقصد تعلیمی اور تہذیبی پروگراموں کا انعقاد کرنا تھا، اس کے علاوہ پٹنہ میں کئی تنظیمیں وجود میں آئیں، 1871ء میں بہار ایسوسی ایشن 1873ء میں ”بہار لٹریری سوسائٹی 1876ء میں بہاراپکارسبھا جیسی تنظیمیں بھی اسی طرح کے اغراض و مقاصد کے تحت قائم کی گئیں۔
سرسید احمد خان کے پٹنہ دورے کے بعد سے ایسی سرگرمیوں میں کافی تیزی آگئی، سرسید پٹنہ میں دو بار تشریف لائے، ایک بار 26 مئی 1873ء کو اور دوسری بار 27 جنوری 1883ء کو اس کے نتیجے میں مارچ ۱۸۸۴ء میں پٹنہ میں محمڈن ایجو کیشن کمیٹی قائم کی گئی، ایجوکیشن جس کا اہم ترین مقصد یہ تھا کہ مسلم نو جوانوں میں جدید سائنسی علوم حاصل کرنے کا رجحان پیدا ہو، اس کے تحت نئے اسکول اور کالج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا، لہذا 1861ء میں اینگلو عربک اسکول قائم کیا گیا جو کہ بالکل علی گڑھ کے ایم اے او کالج کی طرز پر تھا۔
محمدن ایجوکیشن کمیٹی کا دستور سرسید کے صاحبزادے سید محمود کی رہنمائی میں تیار کیا گیا، اس کے پہلے سکر پیڑی شمس العلماء محمد حسن تھے، جو وہابی تحریک کے مشہور رہنما ولایت علی کے صاحبزادے تھے، اس کے دیگر اہم ارکان تھے: خدا بخش خان احمد حسین، ولایت حسین ، علی خان، سید شریف الدین ، سید نور الہدی، محمد حسن عبد الرحیم نواب ، سرفراز حسین خاں نواب اسماعیل ، سید علی امام وغیرہ، اس کمیٹی کا خاص مقصد مسلمانانِ بہار میں جدید تعلیم کے تئیں رجحان پیدا کرنا تھا، یہاں پر ایک بات غور طلب ہے کہ بہار میں راجہ رام موہن رائے کی تحریک کے زیر اثر بڑے ادارے اتنی بڑی تعداد میں قائم نہ ہو پائے جیسا کہ سرسید کے علی گڑھ تحریک کے زیر اثر قائم ہوئے جب کہ بہار اس وقت انتظامی اعتبار سے صوبہ بنگال کا ہی حصہ تھا۔
محمدن ایجوکیشن کمیٹی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 7 جنوری 1884 کو حکومت نے بھی بالفور ڈبلنٹ کو پٹنہ بھیجا تھا ، اور اس نے ان رہنماؤں سے مل کر پٹنہ کے لیے ایک مسلم یونیورسٹی کی تجویز رکھی تھی۔
پھر مارچ 1884 میں شمس العلماء محمد حسن نے محمدن اینگلو عربک اسکول قائم کیا اور اردو اور انگریزی میں گزیٹر بھی شائع کرنا شروع کر دیا ، اس اسکول میں ہندو اور مسلمان دونوں طلبا تھے، اس اسکول کو مالی امداد دینے والوں میں مہدی حسن، محمد جان ، قاضی سید رضا حسین وغیرہ پیش پیش تھے۔
بانکی پور میں دیوبند کے طرز پر ایک دارالعلوم بھی قائم کیا گیا جس کے بانی تھے سید شرف الدین جو حکومت کی توجہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کی جانب دلاتے رہتے تھے ، یہ کانگریس کے ایک اہم رہنما بھی تھے، جن کی کاوشوں سے مسلمانانِ بہار کانگریس کی سیاست میں پیش پیش رہے، جدید تعلیم کے فروغ کے لیے بہار میں سرسید میموریل فنڈ بھی قائم کیا گیا، ایسی ہی تنظیمی سرگرمیوں کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کا تناسب جدید تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں بلکہ سیاسی رہنمائی میں بھی بڑھنے لگا، یعنی بہار میں دانشورانہ سیاسی رہنمائی کی بنیاد پڑگئی، 1877ء میں کلکتہ کے امیر علی نے نیشنل محمدن ایسوسی ایشن کی شاخیں بہار کے کئی شہروں میں قائم کیں ، 1882ء کے بعد اس تنظیم نے باقاعدہ طور پر ارباب اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری کی مانگ شروع کر دی ، اس کی بھی سب سے مضبوط فعال شاخ مظفر پور ہی میں تھی۔
گرچہ محمدن ایجوکیشن کمیٹی نے اپنے کام کا دائرہ عملی طور پر صرف پٹنہ ہی تک محدود رکھا ، جس سے نقصان ہوا ، پھر بھی بہار میں انگریزی تعلیم اور جدید علوم و فنون کو عمومی طور پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیلانے میں اہم ترین رول مسلمانوں نے ہی ادا کیا، پٹنہ میڈیکل اسکول کو انگریزوں نے قائم کیا تھا ، جس میں تین لاکھ روپے درکار تھے، اس میں سے ایک لاکھ روپے لطف علی خان اور ولایت علی خان نے دیئے تھے، پٹنہ انجینئر نگ اسکول کے لیے زمین مظفر پور کے مولوی حسین خان رئیس رسول پور نے دی تھی ، اس زمین کو لوگ لال باغ کے نام سے جانتے تھے، یہاں بھی ولایت علی خاں نے اچھی رقم بہ طور چندہ دیا تھا ، پیشنہ کالج اور اس سے ملحقہ اسکول میں مسلمان طلبہ کا تناسب ۲۳ فی صد تک تھا، اس سے مسلمانانِ بہار کی رید تعلیمی اور مشترک سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی پوری سہولت تھی اس لیے یہاں کے علم دوست مسلم اکابرین نے مسلمانوں کے لیے الگ سے جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ، انہوں نے عام مشترک تعلیمی اداروں کے فوائد دیکھتے ہوئے انہیں قائم کرنے اور چلانے میں آگے بڑھ کر حصہ لیا اور ان جدید ہی کو فروغ و ترقی دینے میں اپنی توانائی صرف کی۔
( یہ مضمون سہ ماہی رسالہ ” دعوت حق مدارس نمبر” میں شائع ہوچکا ہے، مدیر : اختر امام عادل قاسمی ۔جلد 2، شمارہ 9-6، 1426ھ مطابق 2005ء )
