مدارس اور ویدک پاتھ شالاؤں کو آر ٹی ای قانون سے استثنا۔ سپریم کورٹ نے معاملہ بڑی بنچ کو بھیجا
نئی دہلی، 16 اکتوبر 2025 ( روایت نیوز ڈیسک)
سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز ’’حقِ تعلیم قانون‘‘ (Right to Education Act) کی دفعات 1(4) اور 1(5) کی آئینی حیثیت کے مسئلے کو چیف جسٹس بی۔ آر۔ گوائی کے سپرد کیا ہے تاکہ اس پر ایک بڑی بنچ غور کر سکے۔ یہ دفعات مدارس اور ویدک پاتھ شالاؤں کو قانون کے دائرے سے باہر رکھتی ہیں۔
یہ معاملہ قانون کے طالب علم نتن اپادھیائے کی دائر کردہ ایک عوامی مفاد عرضی (PIL) سے متعلق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ دفعات آئین کے منافی ہیں کیونکہ وہ چھ سے چودہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کے حق سے محروم کرتی ہیں۔

عرضی گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’’حقِ تعلیم قانون‘‘ آئین کے آرٹیکل 21-اے کے تحت نافذ کیا گیا، جو بنیادی طور پر آرٹیکل 14 (برابری)، 15 (امتیاز کی ممانعت)، 16 (برابری برائے سرکاری ملازمت) اور 21 (زندگی اور شخصی آزادی) کے تکمیلی حصے کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، اس قانون کا مقصد آئین کے دیباچے اور دفعات 38، 39 اور 46 میں درج سماجی انصاف اور فلاحی اصولوں کو عملی شکل دینا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ قانون کے اصل ڈھانچے کے مطابق چھ سے چودہ سال کے تمام بچوں کے لیے مفت، لازمی اور یکساں معیار کی ابتدائی تعلیم کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے مشترکہ نصاب اور اساتذہ کے لیے کم از کم اہلیت مقرر کی گئی تھی۔ تاہم دفعات 1(4) اور 1(5) اس آئینی ڈھانچے کو کمزور کرتی ہیں کیونکہ یہ اقلیتی اداروں، مدارس، ویدک پاتھ شالاؤں اور مذہبی تعلیم دینے والے دیگر اسکولوں کو قانون کی بنیادی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیتی ہیں۔
عرضی گزار کے مطابق، یہ استثنا آئین کے آرٹیکل 14 کی برابری کی ضمانت کے خلاف ہے کیونکہ اس سے بچوں کے درمیان محض ادارے کے نام کی بنیاد پر تفریق پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات آرٹیکل 15 اور 16 کے منافی بھی ہے کیونکہ ان کے تحت سماجی اور معاشی لحاظ سے کمزور طبقات کے لیے یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کے حق سے متعلق آرٹیکل 21-اے کو ریاست کے سماجی فرائض سے متعلق دفعات 38، 39 اور 46 کے ساتھ ہم آہنگ طور پر پڑھا جانا چاہیے، جن کا مقصد ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کرنا ہے جو اقدار پر مبنی، مساوی اور یکساں معیار پر مبنی ہو۔ عرضی گزار کا مؤقف ہے کہ جب مخصوص اداروں کو ان تقاضوں سے آزاد کر دیا جاتا ہے تو مساوات پر مبنی اس آئینی مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد معاملہ چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا ہے تاکہ وہ اسے بڑی آئینی بنچ کے سامنے پیش کریں۔ بڑی بنچ یہ طے کرے گی کہ آیا مدارس اور ویدک پاتھ شالاؤں کو ’’حقِ تعلیم قانون‘‘ سے استثنا دینا آئین کے اصولِ مساوات کے مطابق ہے یا نہیں۔
