مغربی بنگال مدرسہ ایکٹ پر نظرِثانی کی عرضی سپریم کورٹ نے خارج کی، ایک لاکھ روپے جرمانہ
نئی دہلی، 15 ستمبر (روایت نیوز ڈیسک)
سپریم کورٹ نے مغربی بنگال مدرسہ سروس کمیشن ایکٹ، 2008 پر اپنے 2020 کے فیصلے کے خلاف دائر نظرِثانی عرضی خارج کر دی۔ یہ عرضی کونٹائی رحمانیہ ہائی مدرسہ کی انتظامی کمیٹی اور شیخ محمد عبد الرحمن کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے عرضی گزاروں پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بتا کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس آگسٹین جارج ماسیح کی بینچ نے عرضی کو "مکمل طور پر غلط فہمی” اور "عدالت کے عمل کا غلط استعمال” قرار دیا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ جرمانے کی رقم کسی ایسے ادارے کو دی جائے جو کینسر زدہ بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہو، اور یہ عمل سپریم کورٹ کا سیکریٹری جنرل مکمل کرے گا۔
عرضی میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اپنے 6 جنوری 2020 کے فیصلے (اسک محمد رفیق بنام کونٹائی ہائی مدرسہ) پر دوبارہ غور کرے اور معاملہ چیف جسٹس کے ذریعے بڑی آئینی بنچ کے سامنے بھیجا جائے۔ عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ 2020 کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 30 کی خلاف ورزی کرتا ہے جو اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم اور چلانے کا حق دیتا ہے۔
انہوں نے وسنت سمپت دپاری بمقابلہ یونین آف انڈیا (2025) فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح عدالت نے موت کی سزا کے ایک مقدمے میں پرانا حکم دوبارہ کھولا تھا، ویسے ہی مدرسہ ایکٹ معاملے میں بھی نظرِثانی ہونی چاہیے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ دپاری فیصلہ مخصوص حالات میں موت کی سزا سے متعلق تھا اور اسے اس معاملے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے نریش شری دھر مِراجکر (1966) کے نو رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں واضح کیا کہ عدالتی احکامات کو آرٹیکل 32 کے تحت براہِ راست چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے اپیل یا نظرِثانی کا راستہ ہی درست ہے۔
پس منظر میں، کلکتہ ہائی کورٹ نے 2015 میں مدرسہ سروس کمیشن ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے 2020 میں اس فیصلے کو منسوخ کر کے ایکٹ کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اقلیتی اداروں کو اساتذہ کی تقرری کا مکمل اور غیر مشروط حق حاصل نہیں ہے۔ TMA پائی فاؤنڈیشن اور دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ تعلیمی معیار کے لیے قومی مفاد میں بنے اصول سب اداروں پر یکساں لاگو ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مذہبی تعلیم دینے والے اداروں کو تقرری میں زیادہ آزادی ہو سکتی ہے، لیکن سیکولر مضامین پڑھانے والے اداروں کو قابلیت اور معیار کو ترجیح دینا ہوگی۔ عدالت نے اس وقت طے کیا تھا کہ ایکٹ کی دفعات (دفعہ 8، 10، 11، 12) اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتیں بلکہ قومی و اقلیتی دونوں مفادات کو متوازن کرتی ہیں۔
موجودہ عرضی کو عدالت نے غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا اور کہا کہ یہ معاملہ دراصل عدالت کے عمل کا غلط استعمال ہے، اس لیے ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
