ہزاری باغ کے مدرسہ مظہرالعلوم کی زمین پر تصادم؛ دس افراد زخمی
روایت نیوز ڈیسک: ہمارے یہاں یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ “مدرسہ اور علماء، قوم کی فکری اور دینی شناخت کے امین ہیں”۔ مگر اس حقیقت کو عملی سطح پر تسلیم کرنے اور اس کی حفاظت کا احساس ہمارے معاشرے میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی سطح پر نگرانی، شبہات اور قانونی پیچیدگیاں ایک طرف؛ اور سماج کے اندر مدارس کو محض زکوٰۃ کے مالی ڈھانچے پر چلانے کا تصور دوسری طرف۔ یہ دونوں عوامل ان اداروں کی ساخت اور وقار پر سنجیدہ اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مدرسہ خیراتی کفالت کا محتاج نہیں ہوتا؛ یہ قوم کی فکری وراثت کا مرکز ہے، جس کی سرپرستی ذمہ داری اور شعوری وابستگی چاہتی ہے۔

اسی تناظر میں ہزاری باغ کا تازہ واقعہ قابلِ غور ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جمعے کی صبح ضلع ہزاری باغ کے بَنہا گاؤں (تھانہ کتکمسانڈی) میں مدرسہ مظہر العلوم اور جامع مسجد سے متعلق متنازعہ اراضی کے معاملے پر دو گروپوں میں شدید جھڑپ ہوئی۔ تصادم میں دس افراد زخمی ہوئے، جنہیں بعد ازاں شیخ بھکھری میڈیکل کالج و اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
مدرسہ انتظامیہ کے نمائندہ محمد نجم نے پولیس کو دی گئی شکایت میں کہا ہے کہ صبح 7:15 بجے انہیں اطلاع ملی کہ مخالف فریق کی جانب سے مدرسے کی زمین پر زبردستی قبضے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق مزاحمت پر بحث شروع ہوئی جو جلد ہی تشدد میں بدل گئی۔ نجم کا دعویٰ ہے کہ مخالف گروہ کے محمد حمیم اور ان کے حامیوں نے حملہ کیا۔
اس کے برعکس مخالف فریق کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ زمین انہوں نے اصل مالک سے قانونی طریقے سے خریدی ہے اور وہ صرف حدبندی کی تعمیر کر رہے تھے۔
یہ واقعہ اس وسیع تر سوال سے جڑا ہے کہ مدارس کی ملکیت، خود مختاری اور ادارہ جاتی حرمت کی عملی حفاظت کون اور کیسے کرے؟ جب ان بنیادوں پر تنازع فریقین کے درمیان تصادم کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے اثرات صرف مقامی سطح تک محدود نہیں رہتے۔ یہ سماجی اعتماد اور دینی اداروں کی وقعت دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاملات کو قانونی طریقہ کار، شفاف دستاویزی جانچ اور غیر جذباتی سماجی مکالمے کے ذریعے حل کیا جائے۔تاکہ مدارس کی حرمت، انتظامی نظم اور عوامی اعتماد محفوظ رہ سکے۔
