یوپی حکومت کی جانب سے مدارس کی سرگرمیوں پر مزید سخت نگرانی، تفصیلات گوگل شیٹ میں جمع کرنے کا حکم
لکھنؤ | 14 اگست | روایت ڈاٹ کام
اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ریاست بھر کے مدارس سے مالی، قانونی اور انتظامی نوعیت کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ایک بار پھر اقلیتی تعلیمی اداروں پر اپنی نگاہِ تفتیش کو گہرا کر دیا ہے۔ ضلع اقلیتی بہبود افسران کو جاری کیے گئے نئے سرکاری مکتوب میں کہا گیا ہے کہ مدارس کی آمدنی، اثاثہ جات، ایف سی آر اے رجسٹریشن، فیس وصولی، اور تعمیراتی اخراجات جیسے نکات کی مکمل معلومات فوری طور پر فراہم کی جائیں۔

سرکاری خط کے ساتھ ایک گوگل شیٹ منسلک کی گئی ہے جس میں مخصوص فارمیٹ پر معلومات کو انگریزی رسم الخط میں، بغیر کسی کالم کو ضم کیے، بھرا جانا ہے۔ اس میں مدارس کے بنیادی کوائف سے لے کر ان کی جائیداد، تزئین کاری، طلبہ سے فیس یا چندہ کی وصولی، FCRA رجسٹریشن کی حیثیت، اور زمین کی سرکاری قیمت تک کی معلومات طلب کی گئی ہیں۔
طلب کی گئی معلومات میں کیا شامل ہے؟
محکمہ نے جن نکات پر معلومات طلب کی ہیں، ان میں مدرسے کا نام، پتہ، گاؤں/محلہ، تھانہ، تحصیل، منظوری کی حیثیت (عارضی یا مستقل)، منظور شدہ یا غیر منظور شدہ ہونے کی حیثیت، ایف سی آر اے رجسٹریشن کی موجودگی یا عدم موجودگی، حالیہ تعمیراتی سرگرمیاں، آمدنی میں اضافہ، طلبہ سے فیس یا چندہ وصولی، مدرسہ کی تزئین کاری و فرنیچر پر خرچ کی گئی رقم، اور اسی نوعیت کی کئی دیگر مالیاتی و اثاثہ جاتی تفصیلات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ان مدارس کی علیحدہ فہرست تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جن کی منظوری کی تجدید کے لیے درخواستیں زیر غور ہیں۔ ان سے متعلق زمین کی قیمت، عمارت پر آنے والی لاگت، کمروں کی تعداد، اور سوسائٹی کے رجسٹریشن کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں تاکہ ان کی نوعیت اور مدت کار کی وضاحت کی جا سکے۔
اساتذہ تنظیموں کی برہمی:
مدارس سے وابستہ اساتذہ تنظیموں نے اس نئے حکم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے "ہراسانی” اور "خوف کی فضا پیدا کرنے” کی کوشش قرار دیا ہے۔
آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن کے قومی نائب صدر مولانا طارق شمسی کا کہنا ہے: "ایسی معلومات پہلے بھی مختلف ایجنسیوں کے ذریعے یکجا کی جا چکی ہیں۔ بار بار اسی نوعیت کی تفصیلات مانگنا، مدارس کو مشکوک بنانے کی کوشش ہے۔ کیا یہی پیمانہ دوسرے تعلیمی اداروں، مثلاً گروکل یا مشنری اسکولز پر بھی لاگو ہوتا ہے؟ اگر نہیں، تو یہ آئینی برابری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
مولانا شمسی نے حکومت پر منتقانہ طرز عمل اپنانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ کارروائیاں مذہبی اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو غیر ضروری دباؤ میں لانے کے مترادف ہیں۔
اسی طرح، ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ یوپی کے جنرل سیکریٹری دیوان صاحب زماں خاں نے بھی سرکاری رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: "جس طرح کا پروفارما جاری کیا گیا ہے، وہ محکمہ اقلیتی بہبود کے ارادوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ برسوں کی محنت سے وجود میں آئے اثاثوں کی موجودہ قیمت کا حساب مانگنا ایک طرح سے شکوک و شبہات کو ہوا دینا ہے، جو وزیر اعلیٰ کے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے نعرے سے متصادم ہے۔”
ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت اسے "انتظامی شفافیت” کی کوشش قرار دے رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی معیار ریاست کے دیگر نجی یا مذہبی تعلیمی اداروں پر بھی لاگو کیا جا رہا ہے؟ اگر نہیں، تو اس عمل کو صرف "مدارس کی تطہیر” کے نام پر ایک سیاسی یا نظریاتی ایجنڈے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف ریاستوں میں مدارس پر سرکاری دباؤ، بندش، یا جانچ کی خبریں تواتر سے سامنے آتی رہی ہیں۔ بعض معاملات میں مدارس کو غیر قانونی قرار دینے، ان پر ’تعلیم جہاد‘ جیسے الزامات عائد کرنے، یا انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں بھی سامنے آ چکی ہیں — جس سے تعلیمی اداروں کے گرد شکوک و خوف کی فضا مزید گہری ہوئی ہے۔
یہ تازہ اقدام ایک وسیع تر سوال کو جنم دیتا ہے: کیا مدارس کو ایک تعلیمی ورثہ مانا جائے گا یا ایک مشتبہ ادارہ سمجھا جاتا رہے گا؟ جب تک اس سوال کا جواب شفاف اور منصفانہ انداز میں نہیں دیا جاتا، مدارس اور ان سے جڑی برادریوں میں بےاعتمادی کی خلیج بڑھتی رہے گی۔
