یوپی مدرسوں کی تفصیلی جانچ پھر شروع
لکھنؤ | روایت ڈاٹ کام | 19 نومبر 2025
اتر پردیش حکومت نے ریاست کے سرکاری مدرسوں کی تفصیلی جانچ ایک بار پھر اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے حوالے کر دی ہے۔ اس بار دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع رکھا گیا ہے اور مدرسہ انتظامیہ سے طلبہ، اساتذہ اور منیجمنٹ کے نام، پتے، موبائل نمبر اور دیگر مکمل کوائف فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سرکاری افسران اس اقدام کو “شفافیت اور ریکارڈ کی درستگی” سے تعبیر کر رہے ہیں، جبکہ مدرسہ تنظیمیں اسے غیر ضروری دباؤ اور خوف پیدا کرنے والی کارروائی قرار دے رہی ہیں۔
اے ٹی ایس نے پریاگ راج، پرتاپ گڑھ، کوشامبی، فتح پور، باندہ، ہمیرپور، چترکوٹ اور مہوبہ کے اقلیتی بہبود افسران کو مکتوب بھیجے ہیں۔ ان خطوں میں طلبہ اور اساتذہ کے نام، والد کا نام، پتہ، موبائل نمبر، مدرسے کا نام و پتہ، منیجر کی تفصیل، دیگر ریاستوں سے آنے والے اساتذہ و طلبہ کی تعداد، اور جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کی فہرست الگ فراہم کرنے کی ہدایت شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی فنڈز کے ذرائع اور ملنے والے خصوصی فنڈز کی تفصیل بھی طلب کی گئی ہے۔
افسران کے مطابق یہ مکتوب 15 نومبر کو جاری ہوا تھا اور آئندہ ہفتوں میں اے ٹی ایس کی ٹیمیں متعلقہ اضلاع کا دورہ کریں گی۔ لکھنؤ میں اے ٹی ایس کے سینئر افسران نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مقصد یہ ہے کہ “کسی بھی مدرسے کو شرپسند عناصر کے غلط استعمال سے بچایا جائے۔” ان کے مطابق اس وقت یہ کارروائی صرف انہی آٹھ اضلاع تک محدود ہے۔
پریاگ راج کے اقلیتی بہبود افسر کرشن موری نے بتایا کہ ضلع کی رپورٹ اے ٹی ایس کو ارسال کی جا چکی ہے۔ سرکاری اعداد کے مطابق پریاگ راج میں 206 مدرسے فعال ہیں، جن میں 43 امدادی اور 169 غیر امدادی ہیں۔
دوسری جانب، مدارسِ عربیہ ٹیچرس ایسوسی ایشن یوپی کے جنرل سکریٹری دیوان صاحب زماں خاں نے اس کارروائی پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اے ٹی ایس کو تفصیلات مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے حاصل کرنی چاہئیں۔ ان کے مطابق بغیر کسی باضابطہ حکم کے براہِ راست ضلع افسران سے، یا فون و وہاٹس ایپ کے ذریعے، مدرسوں سے ڈیٹا طلب کرنا جائز نہیں اور اس سے مدارس میں خوف کا ماحول پھیلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جانچ پر اعتراض نہیں، مگر اسے محکمہ اقلیتی بہبود اور مدرسہ بورڈ کی اجازت سے ہونا چاہئے۔

آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارسِ عربیہ کے نائب صدر مولانا طارق شمسی نے کہا کہ مختلف ایجنسیوں کی بڑھتی کارروائیاں اقلیتی تعلیمی اداروں میں بے چینی کو بڑھا رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی سلامتی سب سے اہم ہے اور مدارس کو قانون کے مطابق مکمل تعاون کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس کے ذمہ داران اپنے اساتذہ اور طلبہ کا ریکارڈ، خصوصاً وطنی تفصیلات، درست رکھیں کیونکہ کوئی بھی لاپروائی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مشکوک افراد کو کسی شکل میں پناہ نہ دی جائے—چاہے وہ طالب علم ہو یا استاد۔
