اتر پردیش میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے انہدام کا تفصیلی تجزیہ
اتر پردیش میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے انہدام کا تفصیلی تجزیہ
غالب شمس
اتر پردیش کے ضلع شراوستی کے ایک قدیم مدرسہ انوار العلوم کی تالا بندی اور اس کے بعد عدالت سے اس کی بحالی نے ایک بار پھر ریاست میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے خلاف جاری مہم کی شدت کو نمایاں کر دیا ہے۔
27 اپریل 2024 کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے حکام نے یہ کہتے ہوئے مدرسے کو سیل کر دیا کہ وہ غیر رجسٹرڈ ہے۔ حالانکہ مدرسے کی انتظامیہ کا دعویٰ تھا کہ یہ ادارہ 1974 سے اقلیتی محکمہ میں رجسٹرڈ ہے۔
معاملہ جب الہ آباد ہائی کورٹ پہنچا تو عدالت نے انتظامیہ کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سخت سرزنش کی اور فی الفور مدرسے کو کھولنے کا حکم دیا۔ عدالت کے فیصلے کے باوجود ریاستی مشینری کا یہ رویہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ کیا واقعی یہ مہم صرف ناجائز قبضوں کے خلاف ہے، یا اس کی تہہ میں کوئی اور حکمت عملی پوشیدہ ہے؟
اسی ضلع کے بھرتھا روشنگڑھ گاؤں میں، انتظامیہ نے ایک قدیم مسجد کی چار دیواری کا حصہ مسمار کرا دیا۔ مسجد کے احاطے میں قائم مدرسہ بھی بند کر دیا گیا ۔
مسجد کمیٹی کے سربراہ اشفاق احمد نے بتایا کہ "یہ 100 سال پرانی مسجد ہے۔ حال ہی میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے سروے کیا، جس میں کہا گیا کہ مسجد کی چار دیواری نو مین لینڈ میں آ رہی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "انتظامیہ نے مسماری کا حکم دیا، اور تنازع سے بچنے کے لیے ہم نے خود ہی دیوار گرا دی۔ مسجد کے احاطے میں برسوں سے مدرسہ بھی چل رہا تھا، جسے اب بند کرا دیا گیا ہے۔ مدرسہ رجسٹرار فرم سوسائٹی و چٹ فنڈ آفس ایودھیا میں رجسٹرڈ ہے۔ ہم نے دو سال پہلے یوپی مدرسہ بورڈ سے الحاق کی درخواست دی تھی، لیکن آج تک فیصلہ نہیں آیا۔”
اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ "اگر حکومت غیر تسلیم شدہ مدارس کے خلاف مہم چلا رہی ہے تو پہلے یہ تو واضح کرے کہ ہماری الحاق کی درخواست دو برس سے کیوں التوا میں ہے۔”
یہ واقعہ سرحدی اضلاع میں مسلم برادری پر پڑنے والے بڑھتے دباؤ اور عدم تحفظ کے احساس کی تازہ مثال ہے۔
بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مدارس، مساجد، مزارات اور عیدگاہوں کے خلاف انہدامی کارروائیوں کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں ایسے واقعات میں گزشتہ برسوں کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے۔ حکومت ان کارروائیوں کو ‘لینڈ جہاد’ اور ‘غیر منضبط مذہبی توسیع’ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا حصہ قرار دیتی ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مہم دراصل اقلیتی شناخت اور مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔
اتر پردیش کی صورتِ حال:
ہندوستان ٹائمز کے مطابق ” یوپی میں 25,000 مدارس ہیں، جن میں سے 16,513 مدرسہ بورڈ سے منسلک اور 8,449 غیر تسلیم شدہ ہیں۔
ریاست میں 28 لاکھ طلبہ مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ 2022ء میں ریاست گیر مدرسہ سروے ہوا، مگر اس کی رپورٹ اب تک معاون ثابت نہ ہوسکی۔
25اپریل 2025 سے بھارت-نیپال سرحدی اضلاع میں کارروائی کی نئی لہر کے تحت 350 سے زائد مسلم مذہبی مقامات کی نشاندہی کی گئی، جن میں سے کئی کو مسمار یا سیل کیا جا چکا ہے۔
سرحدی اضلاع — سدھارتھ نگر، بلرام پور، بہرائچ، مہراج گنج، شراوستی اور لکھیم پور کھیری — میں پولیس، ریونیو اور بلدیہ کے افسران پر مشتمل ٹیمیں مدارس کا معائنہ کر رہی ہیں۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں ناجائز تعمیرات اور سیکیورٹی خدشات کی بنا پر کی جا رہی ہیں، خاص طور پر نیپال سرحد سے متصل علاقوں میں۔
ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق
” شرواستی، سدھارتھ نگر، بلرام پور، پیلی بھیت، بہرائچ اور لکھیم پور کھیری اضلاع میں درجنوں مذہبی ڈھانچوں کو یا تو منہدم کر دیا گیا، سیل کر دیا گیا یا انہیں خالی کرنے کے نوٹس تھما دیے گئے۔
شرواستی ضلع انتظامیہ نے مدرسہ رضویہ غوثیہ العلوم (خلافت پور)، مدرسہ دارالعلوم غریب نواز رضا مصطفیٰ (املیا کرن پور) اور مدرسہ اسلامیہ عربیہ تعلیم القرآن (کنڈہ) سمیت کئی مدارس کو منہدم کر دیا۔
اسی طرح بھنگا تحصیل میں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت غوث اعظم (بنتھوا) اور مدرسہ اسلامیہ چنتیو غریب نواز (علی نگر، اکونا تحصیل) کے ساتھ ساتھ کھنوا پوکھر عیدگاہ بھی بلڈوز کر دی گئی۔
بلرام پور: 39 مقامات کی نشاندہی، 24 سیل
بلرام پور میں اب تک 39 مذہبی مقامات کو غیر مجاز قرار دیا گیا ہے، جن میں مدارس، مزارات اور عیدگاہیں شامل ہیں۔ ان میں سے 24 مقامات سیل کر دیے گئے، جبکہ 19 تجاوزات کی الگ سے نشاندہی کی گئی ہے۔ سات جگہوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور چھ پر نوٹس جاری کر کے بقیہ چھ مقامات پر جنگلات اور تعمیرات عامہ محکمے کی کارروائی کی تیاری ہے۔
پیلی بھیت:
پیلی بھیت میں سرکاری زمین پر قائم ایک غیر مجاز مسجد کی نشاندہی کی گئی، پندرہ دن بعد اسے منہدم کردیا گیا۔
لکھیم پور کھیری: مساجد اور مزارات بلڈوز
لکھیم پور کھیری میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ درگا شکتی ناگپال اور ایس پی سنکلپ شرما نے بتایا کہ پچھلے دو روز میں تین مذہبی تجاوزات کی نشاندہی کی گئی، جن میں ایک مزار بھی شامل ہے۔ انتظامیہ اب تک ایک مسجد، ایک مزار اور دو عیدگاہوں سے تجاوزات ہٹا چکی ہے اور ایک عیدگاہ کو سیل کر دیا گیا ہے۔
بہرائچ: 158 تجاوزات ہٹائے گئے
بہرائچ میں اسی دن ایک غیر مجاز عیدگاہ کو منہدم کیا گیا، جبکہ 10 مدارس کو سیل اور تین مدارس کو زمین دوز کر دیا گیا۔”
مہراج گنج ضلع میں 34 مدرسوں اور مذہبی عمارتوں کو سرکاری زمین پر قبضے کے الزام میں نوٹس دیے گئے۔ دو مدرسے سیل اور دو مذہبی عمارتیں مسمار کی گئیں۔
ریاست گیر مہم کا حصہ
حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں ریاست گیر مہم کا حصہ ہیں، جس کا مقصد بین الاقوامی سرحد کے نزدیک سرکاری زمین پر مذہبی ڈھانچوں کو ہٹانا اور تجاوزات کا خاتمہ ہے۔
انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ تمام غیر قانونی تجاوزات کے خلاف سخت اور فوری کارروائی کی جائے — چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
ریاستی حکومت کے مطابق یہ کارروائیاں سرکاری زمین پر ناجائز قبضے اور غیر منضبط مذہبی تعمیرات کے خلاف کی جا رہی ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن مدارس کے پاس ضروری دستاویزات نہیں ہیں یا جو رجسٹریشن کے بغیر قائم ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
تاہم ناقدین کا سوال ہے کہ اس فہرست میں غیر مسلم مذہبی مقامات کی عدم موجودگی کیا ظاہر کرتی ہے؟ کیا واقعی یہ مہم یکساں قانون کا اطلاق ہے یا مخصوص برادری کے خلاف ایک منظم دباؤ؟
مسلمانوں کی تشویش:
اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ بیشتر مدارس رجسٹرڈ ہیں اور ان کے تمام کاغذات مکمل ہیں، اس کے باوجود کارروائی کی جا رہی ہے۔
مسلمانوں کا الزام ہے کہ انتظامیہ کا رویہ متعصبانہ ہے اور صرف مسلم مذہبی مقامات ہی انہدامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس اکثریتی مذہبی تعمیرات کو انہدامی مہم سے استثنیٰ حاصل ہے۔
کلیرین انڈیا ڈاٹ نیٹ کی 29 مئی 2025 ء کی ایک خبر کے مطابق:
” ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
“ہمیں ایسا لگا جیسے اپنے دین پر عمل کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مسجد محض عمارت نہیں تھی، بلکہ ہماری شناخت کا حصہ تھی۔”
آنلائن انگریزی نیوز ایجنسیوں کے مطابق، ریاستی حکومت اب تک 225 سے زائد مدارس، 30 مساجد، 25 مزارات اور 6 عیدگاہوں کو منہدم یا سیل کر چکی ہے۔
انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائیاں سرحدی علاقوں میں قانون و امن اور غیر قانونی قبضے ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ مگر مقامی افراد، سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے ادارے ان اقدامات کو فرقہ وارانہ اور یکطرفہ قرار دے رہے ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر مہم تجاوزات کے خلاف ہے تو دیگر مذہبی ادارے کیوں محفوظ ہیں؟
انڈیا ٹوڈے میں اویناش مشرا نے لکھا ہے
” اس انہدامی مہم کا وقت خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یہ اُس وقت شروع ہوئی ہے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور بھارت کی دہشت گردی کے ٹھکانوں پر کارروائی کی خبریں سرخیوں میں تھی۔”
ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی صرف زمین اور ضابطہ جاتی قوانین کے نفاذ کے لیے ہے، لیکن کارروائی کا دائرہ اور خاص طور پر اسلامی مذہبی مقامات پر مرکوز ہونا سوالات اٹھا رہا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے ترجمان منوج کاکا نے بھی حکومت پر اقلیت مخالف پالیسی کا الزام عائد کیا ہے۔
انہوں نے کہا:
"یہ وہی حکومت ہے جس پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات نہیں بلکہ ملک کے آئین پر بلڈوزر چلا رہی ہے۔ پریاگ راج میں ایک وکیل کا گھر گرائے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو معاوضہ دینے کا حکم دیا تھا۔ حکومت بڑے مجرموں کی غیر قانونی تعمیرات کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ یہ بی جے پی کی پالیسی ہے کہ ایک مخصوص برادری کو نشانہ بنایا جائے۔”
یوپی کے اقلیتی فلاح کے وزیر اوم پرکاش راج بھر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
“نیپال سرحد کے قریب غیر قانونی طور پر بسنے والے لوگ مذہب کے نام پر ناجائز تعمیرات کرتے تھے۔ تعلیم کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیاں چل رہی تھیں۔ اسی لیے کارروائی کی گئی۔”
راج بھر نے کسی بھی نظریاتی مقصد کے الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن محض مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس مہم پر سوالات اٹھا رہی ہے۔”
شاہ پور پورے شیودین گاؤں کے گرام پردھان نور علی نے بتایا کہ انتظامیہ نے ان کا تسلیم شدہ مدرسہ سیل کر دیا ہے۔
"ہم سے زمین کی ملکیت کے کاغذات مانگے گئے۔ تحصیلدار نے بتایا کہ زمین سرکاری ہے، مدرسے کی نہیں۔ 100 سے زیادہ غریب طلبہ یہاں مفت تعلیم، کھانا اور رہائش پا رہے تھے۔ اب سب گھروں کو چلے گئے ہیں، مدرسے کے دوبارہ کھلنے اور پڑھائی شروع ہونے کا کوئی پتہ نہیں۔”
مدارس کی بندش اور مذہبی تعمیرات کے انہدام کے باوجود سرحدی علاقوں میں کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہے، مگر مسلم آبادی میں تشویش اور اضطراب پایا جا رہا ہے کہ ان کے مذہبی ادارے مسلسل نشانے پر ہیں۔
حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مدرسے بند ہونے کے بعد بےدخل مسلم بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست کیا جائے۔
"ہم چاہتے ہیں کہ مدرسوں میں جدید تعلیم اور سہولیات فراہم ہوں۔”
بہرائچ ضلع میں بھی یہی صورتحال ہے۔ انتظامیہ نے 10 غیر تسلیم شدہ مدارس سیل کیے اور 3 منہدم کیے۔
لبابا گنج قصبے کے سرحدی علاقے کے دو بڑے مدرسے بھی سیل کیے جا چکے ہیں۔
محمد سلیم قاسمی، مدرسہ کمیٹی کے صدر نے بتایا کہ
"تقریباً 300 بچے ان کے مدرسہ میں زیر تعلیم تھے، جن میں بہت سے ہاسٹل میں مقیم تھے۔ دونوں مدرسہ رجسٹرار فرم سوسائٹی و چٹ فنڈ آفس میں رجسٹرڈ ہیں لیکن یوپی مدرسہ بورڈ سے الحاق نہیں ہوا۔”
مدرسہ اہل سنت نورالاسلام سوہرٹ گڑھ کے صدر الطاف حسین کا کہنا ہے:
"ہم مدرسوں کی اصلاحی مہم کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر یہ یکطرفہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے مدرسے میں 500 طلبہ زیر تعلیم ہیں، حکومت سے امداد بھی ملتی ہے۔ مگر ضلع میں موجود سنسکرت اداروں میں تو کوئی طالب علم ہی نہیں، پھر بھی وہ محفوظ ہیں۔”
"حکومت کہتی ہے مدرسوں میں جدید تعلیم دی جائے۔ ہم نے سائنس کے اساتذہ رکھے، مگر پچھلے آٹھ سال سے حکومت نے ان کی تنخواہیں بند کر رکھی ہیں۔ تنظیمیں دھرنے دیتی ہیں، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔”
سائنس ٹیچر اختر کمال نے بتایا کہ "ہم نے الہ آباد ہائی کورٹ میں تنخواہ اور مستقل تقرری کے لیے مقدمہ کر رکھا ہے۔”
سابق یوپی مدرسہ بورڈ چیئرمین افتخار احمد جاوید نے کہا:
"کوئی تحریری حکم نہیں کہ مدرسہ الحاق کی درخواستیں منظور نہ ہوں، مگر اقلیتی فلاحی محکمے کے افسر فائلیں دبا دیتے ہیں۔ میرے تین سالہ دور میں آٹھ اجلاس ہوئے اور ہر بار منظوریاں دی گئیں، مگر عمل درآمد نہیں ہوا۔”
پہلگام حملے کے بعد یوپی-نیپال سرحدی علاقوں میں جو مہم چلائی گئی، اس کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر مدارس پر عجلت میں کارروائیاں کی گئیں۔ مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں جو نوٹس دیے گئے، ان میں نہ تو واضح قانونی تفصیل درج تھی اور نہ ہی اس بات کا موقع دیا گیا کہ طلبہ کی تعلیم کے متبادل انتظام یا مدرسے کے قانونی موقف کی وضاحت ہو سکے۔ بعض جگہوں پر تو نوٹس کے فوراً بعد انہدام کر دیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز، انڈیا ٹوڈے، کلیریون ڈاٹ نیٹ اور دیگر معتبر ذرائع کی دو ماہ کی تفصیلی رپورٹنگ اس رجحان کی تصدیق کرتی ہے۔ کلیرین انڈیا ڈاٹ نیٹ 4 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق "اتر پردیش میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت اب تک 500 سے زائد مدارس، درجنوں مساجد اور مزارات منہدم کر چکی ہے۔”
اسی طرز کی کارروائیاں اتراکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں بھی جاری ہیں، اور اگر پچھلے چار سال کا مکمل ریکارڈ کھنگالا جائے تو یہ فہرست اور زیادہ طویل اور تشویشناک بن جائے گی۔
ان تمام واقعات نے مسلمانوں کے درمیان یہ احساس گہرا کیا ہے کہ ان کی مذہبی شناخت، عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے منظم طریقے سے نشانے پر ہیں۔
اقلیتوں کی آئینی مذہبی آزادی، تعلیمی خودمختاری اور برابری کے حقوق اس وقت سنگین سوالات کے گھیرے میں ہیں۔
جس انداز میں مدارس کے الحاق کی درخواستیں برسوں سے التوا میں ہیں، سائنسی تعلیم کی تنخواہیں بند ہیں، اور تسلیم شدہ ادارے بھی انتقامی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں — یہ محض زمین و تجاوزات کا معاملہ نہیں، بلکہ اقلیتی برادری کو بتدریج حاشیے پر دھکیلنے کی ایک گہری اور منظم مہم کی علامت بنتا جا رہا ہے۔

1 thought on “اتر پردیش میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے انہدام کا تفصیلی تجزیہ”