اوقاف اسلامی اور گورنمنٹ
علامہ سید سلیمان ندوی
اس میں شک نہیں کہ موجودہ تحریک سے پہلے ہندوستان مسلمانوں کی یہ دلی خواہش تھی کہ گورنمنٹ اوقاف اسلامی کی نگرانی اپنے ذمہ لے لے۔ چنانچہ مسلم لیگ نے اس کے لیے کچھ کوششیں بھی کیں۔ مولوی عزیز مرزا مرحوم کو گورنمنٹ کی طرف سے سنا ہے، اس وقت یہ جواب ملا تھا کہ گورنمنٹ مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی اور علاوہ ازیں پہلے اس کے لیے مسلمانوں کی متفقہ خواہش تو ظاہر ہونا چاہیے۔ اب یک بیک ۱۹۲۳ء میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ مذہبی مداخلت کے خطرہ کا اور مسلمانوں کی متفقہ خواہش کے اظہار کا خیال کیے بغیر ایک قانون اوقاف تیار ہے اور حکومت اپنی غایت کرم اور رعایا پروری سے اس کی نگرانی کو آمادہ ہے۔ یکا یک اس انقلاب حال کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔

مگر کل ڈاک سے ہمارے پاس علی گڑھ سے ایک مطبوعہ تحریر وصول ہوئی ہے، جس میں یہ ہدایت ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر جگہ جلسے کر کے گورنمنٹ کو تار دیں کہ اس جگہ کے مسلمان گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ ۱۹۲۳ء کے قانون اوقاف کا اس صوبہ میں جلد سے جلد نفاذ شروع کر دیا جائے ۔ اس تحریر سے تمام واقعات ہمارے سامنے روشن ہو گئے اور ہم نے دلالوں کے نام پڑھ کر کمپنی کے قیام کے اسباب معلوم کر لیے۔ کم از کم اتنا فائدہ تو اس سے ہے کہ اس تدبیر سے حکومت موجودہ اور عام مسلمانوں کے درمیان جو رضا مندانہ تعلقات نہیں، یا ایک بے گانگی سی آگئی ہے۔ اس عرض و معروض اور پیام و درخواست اور راز و نیاز کی تقریب سے کچھ نہ کچھ تو اس میں کمی آجائے گی، اور باہمی حجاب کم ہوگا، اور اس طرح ٹوٹے ہوئے روابط پھر جڑنے شروع ہو جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ متولی اوقاف کی آمدنی کو ذاتی اغراض میں صرف کرتے ہیں، مگر شاید اس اعتراض سے حکومت بھی بری نہیں خیال کی جاسکتی۔ جن اوقاف یا کورٹ آف وارڈس کی نگرانی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ان کے محاصل گورنمنٹ پرستوں کی پرورش ، وفاداروں کے انعام و اکرام، قرض ہائے جنگ اور دیگر ان مدوں میں صرف نہیں کر دی جاتی، جن کے لیے حکام ضلع یا حکام صوبہ کے سرکاری بجٹ میں رقم نہیں ہوتی۔ بصورت اثبات کیا یہ خوف بے محل ہے کہ اس کشادہ دستی کا رقبہ آیندہ وسیع سے وسیع تر نہ ہو جائے گا۔ ذرا اس خطرہ کو تو دور کر لیجیے۔
بہر حال چونکہ یہ قانون صوبہ متحدہ کی کونسل میں ۴۵ رایوں کی موافقت سے منظور ہوا ہے۔ اور صرف ۸ رائیں اس کی مخالفت میں تھیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا جذبہ با ایں ہمہ سیاسی مشکلات و عوائق یہ ہے کہ وہ اوقاف کی بد نظمیوں سے اس قدر تنگ آگیا ہے کہ وہ ان کی نگرانی اور ا حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ بعض گوشوں سے اس قانون کی مخالفت کی بھنک بھی آرہی ہے، مگر یہ وہی گروہ ہے، جو اس قانون کی رو سے مدعا علیہ ہے۔ یعنی متصرفین اوقاف مگر اس کی پروانہ کرنی چاہیے۔
غریو و عربده واعظان تلخ نوا
زمستی است که در لقمائے اوقاف است
(واعظوں کی تلخ آواز اور شور و شرابہ دراصل اس نشے کا اثر ہے جو انہیں اوقاف کی روٹی سے ملتا ہے۔)
نوٹ: یہ مضمون علامہ سید سلیمان ندوی کا ہے جو اپریل 1923ء کے رسالہ معارف میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں اسے کتاب "ہندوستانی مسلمان: شذرات معارف کے آئینہ میں (جولائی 1916ء – جون 1956ء)” (صفحہ 36) میں شامل کیا گیا۔
روایت کے قارئین کے لیے یہ تاریخی تحریر یہاں نقل کی جا رہی ہے تاکہ نئی نسل کو اوقاف اور حکومت کے تعلقات پر سو سال پرانی بحث کا ادراک ہو سکے۔
