”بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر " سترہ برس بعد بھی انصاف کہاں ہے؟
افروز عالم ساحل
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو سترہ برس ہو گئے، مگر ان سترہ برسوں کے بعد بھی اس کے زخم اعظم گڑھ کے کئی گھروں میں ہرے ہیں۔ انکاؤنٹر کے بعد گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں سے ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب اب بھی جیل میں قید ہیں۔ ان میں سے کئی پر مختلف شہروں میں مقدمات درج ہیں۔

ایک کے بعد ایک، عدالتوں کے چکر، وکلاء کی فیس، اور امید و ناامیدی کا مسلسل سفر جاری ہے۔
انہی نوجوانوں میں ایک نام شہزاد کا بھی ہے، جو جیل میں ہی دم توڑ گیا۔ اس معاملے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان لڑکوں کے اہل خانہ آج بھی خوف میں جیتے ہیں۔ بیشتر ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ دار اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر میڈیا میں کچھ کہہ دیا، یا کسی نے ان کے بیٹے کا نام دوبارہ لے لیا، تو کہیں عدالت میں ان کے بچے کا نقصان نہ ہو جائے۔
اس بات کا اندازہ گزشتہ دو تین دنوں میں ہوا، جب میں نے اس معاملے سے جڑے ایکٹوسٹوں یا گھر والوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ کوئی بھی آن ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں ہوا۔
دراصل، ان گھروں کے حالات بڑے نازک ہیں۔ کئی والدین اپنے بچے کے صدمے میں اس دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ انکاؤنٹر میں مارے گئے عاطف امین کے والد اور ان کے بھائی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب گھر میں صرف ان کی ماں ہیں۔ وہیں اسی انکاؤنٹر میں مارے گئے محمد ساجد عرف چھوٹا ساجد کے والد بھی صدمے میں چل بسے ہیں۔ محمد سلمان کے دادا تو وہیں عارف بدر، محمد عارض خان اور ابو راشد کے والد بھی صدمے میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو جتنے بھی بچے جیل میں ہیں، زیادہ تر کے گھروں میں کسی نہ کسی کا انتقال ضرور ہوا ہے۔
بتادیں کہ 19 ستمبر 2008 کو دہلی کے جامعہ نگر میں بٹلہ ہاؤس کے ایل 18 فلیٹ میں مبینہ طور پر پولیس ’انکاؤنٹر‘ کے دوران دو مسلم نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد مارے گئے تھے۔ عاطف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے ہیومن رائٹس کا طالب علم تھا جبکہ ساجد گیارہویں میں داخلہ کی تیاری کے لیے دہلی آیا ہوا تھا۔ ان دونوں پر 2008 کے دہلی سیریل بم دھماکوں کو انجام دینے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ یہ انڈین مجاہدین کے رکن تھے۔ اس ’انکاؤنٹر‘ میں دہلی پولیس اسپیشل سیل کے انسپکٹر موہن چند شرما کی بھی موت ہوئی تھی۔
اس کے بعد ملک میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ صرف اعظم گڑھ سے ہی انڈین مجاہدین کا ’دہشت گرد‘ بتا کر چودہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی۔ ان کے نام ملک کے متعدد بم دھماکوں کے ساتھ جوڑ دیے گئے۔ وہیں اس معاملے میں سات نوجوانوں کو مفرور قرار دیا گیا، حالانکہ پانچ سال بعد اس فہرست میں محمد راشد، شرف الدین اور شاداب کے نام کے ساتھ یہ تعداد دس ہوگئی۔ ان تینوں کے خلاف این آئی اے نے سال 2012 میں ایک ایف آئی آر درج کی اور ان پر انسداد غیر قانونی سرگرمیوں کی دفعات لگائی گئیں حالانکہ ان کے ایف آئی آر میں کسی واقعے کا ذکر نہیں تھا۔ گرفتار نوجوان ابھی بھی ہندوستان کی مختلف جیلوں میں بند ہیں اور ان کے گھر والے انصاف پانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
اعظم گڑھ سے گرفتار ان نوجوانوں کے ناموں کو 13 مئی 2008 کے جے پور سیریل دھماکے، 26 جولائی 2008 کو احمد آباد میں ہوئے دھماکے، سورت میں زندہ بموں کی بازیابی، 13 ستمبر 2008 کو دہلی دھماکے، 23 نومبر 2007 کو اتر پردیش کے وارانسی، فیض آباد اور لکھنؤ کی کچہریوں میں ہوئے سلسلے وار دھماکے اور 22 مئی 2007 کو گورکھپور گول گھر دھماکے سمیت کئی معاملوں میں جوڑ دیا گیا۔
اگر جئے پور معاملے کی بات کی جائے تو یہاں کل آٹھ مقدمے الگ الگ چل رہے تھے۔ مجموعی طور پر تقریباً 1200 گواہ تھے۔ 2019 میں جے پور کی ایک خصوصی عدالت کے ذریعہ محمد سیف، محمد سرور عزمی، سیف الرحمٰن اور محمد سلمان کو سزائے موت دی گئی ،جبکہ ایک ملزم شہباز حسین کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا۔ لیکن 29 مارچ 2023 کو راجستھان ہائی کورٹ نے نہ صرف پولیس کی ’ناقص‘ اور ’ناکام‘ تفتیش کو مسترد کر دیا، بلکہ شواہد میں ’ہیرا پھیری اور جعل سازی‘ کی نشاندہی بھی کی۔ راجستھان ہائی کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ اس مقدمے کی تحقیقات منصفانہ نہیں تھیں اور تحقیقاتی افسران نے ’غیر اخلاقی طریقے‘ استعمال کئے۔ججوں نے راجستھان پولیس کے سربراہ کو یہ تک ہدایت دی کہ تفتیشی افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ ایک خبر کے مطابق، ریاستی حکومت ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بھی گئی ہے۔
وہیں، اب اس فیصلے کے بعد ایک نویں ایف آئی آر کے تحت جس میں کہا گیا کہ 13 مئی 2008 کوجے پور میں نواں بم چند پول بازار کے ایک گیسٹ ہاؤس کے قریب برآمد ہوا تھا، جسے دھماکے سے محض 15 منٹ قبل ناکارہ بنا دیا گیا، یوں ایک اور بڑی تباہی ٹل گئی، ان پر پھر سے معاملہ شروع ہوا۔ اور اب پھر سے اسی سال 04 اپریل 2025 کو جے پور کی خصوصی عدالت نے سیف الرحمٰن، محمد سیف، محمد سرور عزمی اور شہباز احمد کو سخت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اب یہ معاملہ پھر سے راجستھان ہائی کورٹ میں ہے، اور اس نے ۱۳ مئی ۲۰۲۵ کو شہباز احمد کے ریکارڈ طلب کئے ہیں، جب وہ اپنی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے لیے پیش ہوا۔ اس سلسلے میں عدالت نے ریاستی حکومت کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔
اگر بات احمد آباد کی کریں تو یہاں کے تمام معاملات کو مستحکم کر کے سیشن ٹرائل نمبر 38/2009 کے تحت مقدموں کی سماعت جاری ہے۔ یہاں 3500 سے زائد گواہ ہیں۔ اور تمام گرفتار نوجوان بطور ملزم جیلوں میں قید ہیں۔ وہیں دہلی سیریئل دھماکے معاملے میں تقریباً ایک ہزار گواہ ہیں۔ ثاقب نثار نے اپنی ضمانت کے لئے ٹرائل کورٹ کے جولائی 2022 کی اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس نے اسے انسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ (UAPA) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت دینے سے انکار کیا تھا، لیکن ثاقب کے اپیل کو ۲۹ اپریل ۲۰۲۴ کو خارج کردیا۔ معاملہ ابھی بھی ٹرائل کورٹ میں ہی ہے۔
وہیں بٹلہ ہاﺅس انکاﺅنٹر میں موہن چند شرما کی ’موت ‘ کے معاملے میں 25 جولائی 2013 کو دہلی کے ساکیت سیشن کورٹ نے ایک ملزم شہزاد احمد (عرف پپو) کو سزا سنائی، وہیں 2018 میں پولیس کے کہنے کے مطابق عارض خان (عرف جنید) کو نیپال بارڈر سے گرفتار کیا گیا اور 15 مارچ 2021 کو ٹرائل کورٹ نے انہیں انسپکٹر موہن چند شرما کے ’قتل ‘ کا مجرم قرار دیا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ ساتھ ہی اس پر 1.1 ملین روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ لیکن جب معاملہ ہائی کورٹ میں گیا تو 13 اکتوبر 2023 کو دہلی ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ۔ وہیں اس سے قبل شہزاد قید کے درمیان بیمار ہوئے اور 28 جنوری 2023 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
کیا کہتی ہے بٹلہ ہاؤس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ؟
سال 2010 میں مجھے قومی حقوقِ انسانی کمیشن کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت جو پوسٹ مارٹم رپورٹ ملی، اس میں عاطف اور ساجد کے ساتھ انسپکٹر موہن چند شرما کی رپورٹ بھی شامل تھی۔
رپورٹ کے مطابق عاطف امین (24 سال) کی موت شدید درد (Shock & hemorrhage) سے ہوئی اور محمد ساجد (17) کی موت سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی جبکہ انسپکٹر شرما کی موت کی وجہ گولی سے پیٹ میں ہوئے زخم سے بہت زیادہ خون بہنا بتائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق تینوں افراد کو جو زخم لگے وہ سب موت سے پہلے کے (Antemortem in Nature) تھے۔
رپورٹ کے مطابق محمد عاطف امین کے جسم پر اکیس زخم تھے جن میں سے بیس گولیوں کے ہیں۔ عاطف امین کو کل دس گولیاں لگیں اور ساری گولیاں پیچھے سے (پیٹھ کی طرف سے) لگی تھیں۔ آٹھ گولیاں پیٹھ پر، ایک دائیں بازو پر پیچھے سے اور ایک بائیں ران پر نیچے سے۔ 2X1 سینٹی میٹر کا ایک زخم عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے پر تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ زخم کسی غیر دھار دار چیز سے یا رگڑ لگنے سے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں عاطف کی پیٹھ اور جسم کے کئی حصوں میں خراشوں کا تذکرہ ہے۔ جبکہ ایک زخم میں سے جو بائیں کولھے کے پاس ہے دھات کا ایک تین سینٹی میٹر مادہ بھی ملا۔
ٍمحمد ساجد کے جسم پر کل ۱۴زخم تھے۔ ساجد کو پانچ گولیاں لگیں اور ان سے بارہ زخم آئے تھے۔ جس میں سے تین گولیاں دائیں طرف پیشانی کے اوپر، ایک گولی پیٹھ پر، بائیں طرف اور ایک گولی دائیں کندھے پر لگی تھیں۔ محمد ساجد کو لگنے والی تمام گولیاں نیچے کی طرف سے نکلی تھی۔ جیسے ایک گولی جبڑے کے نیچے سے (ٹھوڑی اور گردن کے درمیان) سر کے پچھلے حصے سے اور سینے سے۔ رپورٹ میں کم از کم دو دھات کے ٹکڑوں (Metallic Object) کا ذکر ہے، جس میں سے ایک کا سائز 0.8X1 سینٹی میٹر ہے جب کہ دوسرا مادہ پیٹھ پر لگے زخم (GSW 7) سے ساجد کی ٹی شرٹ سے ملا ہے۔ اس زخم کے پاس 5X1.5 سینٹی میٹر لمبا کھال چھلنے اور خراش کا نشان بھی تھا۔ محمد ساجد کی پیٹھ پر درمیان میں سرخ رنگ کی 4X2 سینٹی میٹر کی خراش تھی۔ اس کے علاوہ دائیں پیر میں سامنے (گھٹنے سے نیچے) کی طرف 3.5X2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم تھا۔ ان دونوں زخموں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زخم گولی کے نہیں ہیں۔ ساجد کو لگے کل چودہ زخموں میں سے رپورٹ میں سات زخموں کو انتہائی گہرا ( Deep Cavity) زخم قرار دیا گیا ہے۔
محمد عاطف امین کے جسم پر تقریباً تمام گولیاں پیچھے سے لگی ہیں۔ آٹھ گولیاں پیٹھ میں لگ کر سینے سے نکلی ہیں۔ ایک گولی دائیں بازو پر پیچھے سے باہر کی جانب سے لگی ہے جبکہ ایک گولی بائیں ران پر لگی ہے اور یہ گولی حیرت انگیز طور پر اوپر کی جانب جاکر بائیں کولھے کے پاس نکلی ہے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے تعلق سے چھپی خبروں اور اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ عاطف گولیاں چلاتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ فلیٹ میں موجود ہیں لہٰذا کراس فائرنگ کی وجہ سے اسے پیچھے سے گولیاں لگیں۔ لیکن انکاونٹر یا کراس فائرنگ میں کوئی گولی ران میں لگ کر کولھے کی طرف کیسے نکل سکتی ہے؟ عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے میں 1.5×1 سینٹی میٹر کا جو زخم تھا اس کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ گولی چلاتے ہوئے وہ گر گیا تھا۔ پیٹھ میں گولیاں لگنے سے گھٹنے کے بل گرنا سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ پھر عاطف کی پیٹھ کی کھال اتنی بری طرح سے کیسے اُدھڑ گئی؟
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عاطف کے دائیں کولہے پر سات سے چھ سینٹی میٹر کے اندر کئی جگہ رگڑ کے نشانات بھی پائے گئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کا بیان آیا کہ ساجد ایک گولی لگنے کے بعد گر گیا تھا اور وہ کراس فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس بیان کو گمراہ کن کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ساجد کو جو گولیاں لگی ہیں ان میں سے تین پیشانی سے نیچے کی طرف ہیں جس میں سے ایک گولی ٹھوڑی اور گردن کے درمیان جبڑے سے بھی نکلی ہے۔ ساجد کے دائیں کندھے پر جو گولی ماری گئی ہے وہ بالکل سیدھی نیچے کی طرف آئی ہے۔ گولیوں کے ان نشانات کے بارے میں پہلے ہی آزاد فارنسک ماہرین کا کہنا ہے کہ یا تو ساجد کو بیٹھنے پر مجبور کیا گیا یا گولی چلانے والا اونچائی پر تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت اس فلیٹ میں ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ کراس فائرنگ تو آمنے سامنے ہوتی ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ ساجد کے دائیں پیر میں جو زخم ہے آخر وہ کیسے لگا؟ پشت اور جسم کے دوسرے مقامات پر خراش کے نشانات کیسے آئے؟
ساجد کے پیر کے زخم کے تعلق سے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ کسی غیر دھار دار چیز (Blunt Force by object or surface) سے لگے ہیں، پولیس اس کی وجہ گولی لگنے کے بعد گرنا بتا رہی ہے لیکن کیا 3.5×2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم فرش پر گرنے سے آسکتا ہے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ عاطف اور ساجد کو شہید کرنے سے پہلے بری طرح زد وکوب کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مجھے دو سال کا وقت لگ گیا۔ اس میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سب سے اہم ہے۔ آر ٹی آئی کے ذریعے باہر آئی پوسٹ مارٹم رپورٹ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ سب سے اہم سوال ایم سی شرما کی موت پر ہے۔ جو شخص گولی لگنے کے بعد اپنے پیروں پر چل کر چار منزلیں اتر کر نیچے آیا ہو اور کہیں بھی ایک قطرہ خون بھی نہ گرا ہو اور جو میڈیا کے رپورٹ کے مطابق شام پانچ بجے تک بالکل خطرے سے باہر ہو اس کی شام سات بجے اچانک موت کیسے ہو گئی؟
جہاں تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تعلق ہے انسپکٹر موہن چند شرما کے بائیں کندھے سے دس سینٹی میٹر نیچے اور کندھے سے آٹھ سینٹی میٹر اوپر زخم کے باہری حصہ کی صفائی کی گئی تھی۔ موہن چند شرما کو 19ستمبر 2008 میں L-18 میں زخمی ہونے کے بعد قریبی اسپتال ہولی فیملی میں داخل کیا گیا تھا۔ انہیں کندھے کے علاوہ پیٹ میں بھی گولی لگی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پیٹ میں گولی لگنے سے خون زیادہ بہہ گیا تھا اور یہی موت کا سبب بنا۔ اب پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب موہن چند شرما کو دس منٹ کے اندر طبی امداد حاصل ہو گئی تھی تو پھر حساس ترین مقامات (Vital part) پر گولی نہ لگنے کے باوجود بھی ان کی موت کیسے واقع ہو گئی؟
سوال یہ بھی ہے کہ موہن چند شرما کو گولی کس طرف سے لگی، آگے سے یا پیچھے سے؟ کیوں کہ اس طرح کی بھی آراء تھیں کہ شرما پولیس کی گولی کا شکار ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں فارنسک ماہرین کا بھی جو بیان ہے وہ تشفی بخش نہیں ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی اس کو واضح کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ ہولی فیملی اسپتال میں جہاں انہیں طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا اور بعد میں وہیں ان کی موت بھی واقع ہوئی، ان کے زخموں کی صفائی کی گئی تھی۔ لہٰذا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکے کہ یہ زخم گولی لگنے کی وجہ سے ہوا ہے یا گولی نکلنے کی وجہ سے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسپکٹر موہن چند شرما کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (ایمس) میں سفید سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا لے جایا گیا تھا اور ان کے زخم پٹی (Adhesive Leukoplast) سے ڈھکے ہوئے تھے۔ رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ تفتیشی افسر (IO) سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ موہن چند شرما کے کپڑے فارنسک سائنس تجربہ گاہ میں لائیں۔ لیکن آج تک ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی موت پر بے شمار سوالات ہیں جن کا جواب آج تک نہیں مل پایا ہے۔
قانونی تقاضے نظر انداز
عام طور پر ایسے کیس میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ ویڈیو گرافی رپورٹ بھی قومی انسانی حقوق کمیشن کو بھیجی جاتی ہے۔ لیکن ایم سی شرما کی رپورٹ میں صرف یہ درج ہے کہ زخموں کی تصویر پر مبنی سی ڈی تفتیشی افسر کے حوالے کر دی گئی، جبکہ عاطف اور ساجد کی رپورٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔
یہیں پر بات ختم نہیں ہوتی۔ موہن چند شرما کے بلٹ پروف جیکٹ نہ پہننے کے سوال پر دہلی پولیس نے کمیشن کو یہ وضاحت دی تھی کہ علاقے میں جیکٹ پہن کر جانا مناسب نہیں تھا کیونکہ اس سے لوگوں کو شک ہو سکتا تھا۔ پولیس کی یہ دلیل بظاہر غیر سنجیدہ محسوس ہوتی ہے۔
قانونِ حقِ اطلاعات کے تحت حاصل دستاویزات بتاتی ہیں کہ حکومت نے ہر ممکن طریقے سے اس ’انکاؤنٹر‘ کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی قومی انسانی حقوق کمیشن جس نے دہلی پولیس کو کلین چٹ دی، اپنی فہرست میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر کے طور پر بھی درج کرتا ہے۔ تحریری طور پر یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ نہ وہ کبھی جائے وقوعہ پر گیا، نہ ہی کسی سے گفتگو کی۔
یہی صورت دلی اقلیتی کمیشن کی بھی رہی۔ قانونِ حقِ اطلاعات سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق کمیشن نے بھی پانچ نومبر 2008 کو ایک فیکٹ فائڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جسے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ دلی اقلیتی کمیشن کی یہ انکوائری کبھی عمل میں نہیں آئی۔ نہ ہی دلی اقلیتی کمیشن نے بٹلہ ہاؤس کا دورہ کیا اور نہ ہی اس نے کسی سے بات کی اور نہ ہی کوئی رپورٹ پیش کی۔
اس کے آگے کی کہانی تو اور بھی دلچسپ ہے۔ انکاؤنٹر کے فوراً بعد پولیس اور میڈیا نے زور شور سے یہ سنسنی پھیلائی تھی کہ دلی پولیس کو جہاد سے متعلق قابل مواخذہ دستاویز اور لٹریچر ملا ہے۔ لیکن قانونِ حقِ اطلاعات کے مطابق بٹلہ ہاؤس کے L-18 سے پولیس کے ذریعہ جمع کیے گئے پارسلز میں دیگر چیزوں کے ساتھ ایک کتاب ’پنچ تنتر‘ بھی برآمد ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ ’پنچ تنتر‘ کا تعلق نام نہاد جہادی لٹریچر سے نہیں ہے۔
