بھاونگر میں دارالعلوم اکواڑہ کا ہاسٹل بلاک منہدم: اچانک کارروائی پر مسلم حلقوں کی تشویش
بھاونگر (گجرات)، 24 نومبر 2025۔ روایت نیوز ڈیسک۔
گجرات کے بھاونگر میں پیر کی صبح 6 بجے دارالعلوم مدرسہ اکواڑہ پر اچانک بڑی انہدامی کارروائی کی گئی۔ میونسپل کارپوریشن نے سخت سیکورٹی میں ہاسٹل بلاک، کمپاؤنڈ ہال اور کچن سمیت وہ تمام تعمیرات گرا دیں جنہیں 24 میٹر چوڑی ٹاؤن پلاننگ روڈ کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا تھا۔
مدرسہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کارروائی کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، اور املاک کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ چار جے سی بی، تین ہٹاچی اور دو ڈمپرز مسلسل استعمال ہوئے، جبکہ 100 سے زائد پولیس اہلکار پورے علاقے میں تعینات تھے۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق کارروائی اس قدر اچانک تھی کہ علاقہ چند منٹ میں محاصرے کی شکل اختیار کر گیا۔

بھاونوگر میونسپل کارپوریشن کا مؤقف ہے کہ جامعہ عربیہ اسلامیہ دارالعلوم کے کچھ حصے قواعد کی خلاف ورزی میں تعمیر ہوئے تھے اور سڑک کی لائن میں داخل تھے۔ کمشنر ڈاکٹر نریندر مینا کا کہنا ہے کہ نوٹس جاری کیے گئے تھے اور “کسی مذہبی عمارت کو ہاتھ نہیں لگایا گیا، صرف وہی تعمیرات گرائی گئیں جو سڑک میں رکاوٹ تھیں۔”
مقامی ردعمل: کارروائی کو صرف ‘تجاوزات’ کا معاملہ نہیں سمجھا جا رہا
علاقے میں اس کارروائی پر شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ مقامی لوگ اور سماجی کارکن اس معاملے کو محض تجاوزات کا تنازع نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں مسلم اداروں، قبرستانوں، مدارس اور مذہبی املاک کے خلاف اچانک کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث یہ واقعہ بھی اسی وسیع تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
لوگوں کے مطابق مسجدوں اور مدارس سے متعلق معاملات میں انتظامیہ غیر معمولی سخت رویّہ اپناتی ہے، جبکہ دوسرے علاقوں میں یہی تنازعات زیادہ تر بات چیت یا جرمانے کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔
مدرسے کے اطراف موجود رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اگر مقامی مشاورت ہوتی تو اس تنازع کو انہدام تک نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔ اچانک کارروائی نے علاقے میں خوف اور بے اعتمادی پیدا کی ہے۔
ریاست گیر رجحان: کارروائیوں کا تسلسل اور بڑھتی ہوئی بے اعتمادی
گجرات کے مختلف اضلاع میں گزشتہ برسوں میں مسلم اداروں کے خلاف انہدامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے—کہیں تجاوزات کے نام پر، کہیں سرکاری زمین کے استعمال کے عنوان سے۔
سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں محض شہری منصوبہ بندی کا حصہ نہیں بلکہ ایک ایسے انتظامی رویّے کی نشاندہی کرتی ہیں جسے مسلم طبقہ تعصب کے طور پر محسوس کر رہا ہے۔
بھاونگر کا حالیہ انہدام اسی بڑے پیٹرن کو مضبوط کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ریاست میں اسلاموفوبیا کی فضا اور گہری ہوئی ہے۔ مقامی آبادی میں خوف اور بے اعتمادی بڑھ رہی ہے، اور ایک بڑا طبقہ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کارروائیاں کیوں ہمیشہ انہی علاقوں پر زیادہ شدت سے کی جاتی ہیں جہاں مسلم ادارے واقع ہوں۔
