دہلی دھماکے کے بعد کشمیر میں چھاپے تیز، مساجد اور مدارس کی تلاشی۔ مقامی حلقوں میں بے چینی
روایت نیوز ڈیسک | یکم دسمبر 2025
دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب 10 نومبر کو ہونے والے دھماکے کے بعد کشمیر میں سیکورٹی کارروائیاں تیز ہو گئی ہیں۔ سرینگر میں جمعرات کو پولیس نے مساجد اور مدارس کی تلاشی لی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ان نیٹ ورکس کی جانچ کیلئے ہے جن کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی شدت پسند سرگرمی سے جڑے ہو سکتے ہیں۔ دھماکے میں کئی افراد جان سے مارے گئے تھے، اور پولیس کے مطابق گاڑی کا مشتبہ ڈرائیور عمر نبی کشمیر کا باشندہ تھا۔ مرکزی حکومت نے اس واقعے کو دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔
دھماکے سے چند گھنٹے پہلے فرید آباد اور سہارنپور میں ایک مبینہ ’’بین ریاستی دہشت گرد گروہ‘‘ کے پکڑے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جس کے بعد وادی میں چیکنگ مزید سخت کر دی گئی۔ 12 نومبر کو پولیس نے کشمیر میں 300 سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے۔ ان مقامات کا تعلق ان افراد سے جوڑا گیا جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کالعدم جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ سرینگر میں تازہ کارروائی کے دوران پولیس کی ٹیمیں ایگزیکٹیو مجسٹریٹ اور آزاد گواہان کے ساتھ مساجد و مدارس میں داخل ہوئیں۔ اہلکاروں نے ڈیجیٹل آلات، دستاویزات اور ریکارڈ کی جانچ کی۔ تاہم اب تک کسی بڑی برآمدگی یا گرفتاری کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
اس صورتحال نے مقامی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ مدرسہ منتظمین اور والدین کہتے ہیں کہ جب بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں، مدارس فوراً شک کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اکثر چھاپوں کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آتا، مگر اداروں کی ساکھ اور طلبہ کی روزمرہ تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایک مدرسہ منتظم نے روایت نیوز ڈیسک کو بتایا کہ “ہمیں جب بھی تلاشی دی جاتی ہے تو ادارے کا معمول بگڑ جاتا ہے۔ سوال پوچھنا درست ہے، مگر ہر بار پورے ادارے کو مشتبہ ٹھہرانا مناسب نہیں۔”
مقامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے خوف اور بے اعتمادی بڑھتی ہے، اور مدارس پر پہلے سے موجود دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف پولیس کا مؤقف ہے کہ کارروائیاں قانونی تقاضوں کے مطابق کی جا رہی ہیں اور مقصد امن و امان کو برقرار رکھنا ہے۔ پولیس نے کہا کہ جہاں بھی قابلِ اعتماد اطلاعات ملیں گی، تلاشی مہم جاری رہے گی۔
دہلی دھماکے کی تفتیش جاری ہے، مگر وادی میں ایک سوال شدت کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ ہر دھماکے کے بعد مدارس کو فوری طور پر مشکوک فہرست میں رکھ دینا کیا واقعی مؤثر اور منصفانہ طریقہ ہے؟ مقامی حلقوں کے مطابق اس طرزِ عمل سے نہ صرف تعلیمی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ معاشرتی اعتماد بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
