ذہنی صحت( مینٹل ہیلتھ )ایک سماجی مسئلہ ہے
استخار علی گوٹنگن (جرمنی) کی یونیورسٹی کے Centre for Modern Indian Studies میں ریسرچ فیلو ہیں اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے Centre for Social Medicine and Community Health میں پی ایچ ڈی اسکالر بھی ہیں۔ روایت ڈاٹ کام کے لئے غالب شمس نے ان سے ذہنی صحت، اس کے اسباب اور طلبہ پر اس کے اثرات پر تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات۔

آپ دہلی سے کیرالہ تک تنہا سفر پر نکل چکے ہیں ۔ یہ سفر کیوں اور کس مقصد کے لیے ہے؟
جی، میرے اس سفر کا بنیادی مقصد Mental Health Awareness ہے۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے بعد جب فیلڈ ورک کیا تو محسوس کیا کہ "Mental Health” کو ہمارے ملک میں ایک انفرادی مسئلہ سمجھا جاتا ہے یعنی کسی شخص کی کمزوری یا ذاتی الجھن — حالانکہ یہ دراصل ایک سماجی اور ساختیاتی (structural) مسئلہ ہے۔ مثلاً، اگر کسی شخص کے پاس روزگار نہیں، معاشی دباؤ زیادہ ہے، یا سماجی سپورٹ نہیں مل رہی، تو یہ سب اُس کی ذہنی صحت پر اثر ڈالتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں ذہنی مسائل کو “پاگل پن” کے طعنے سے جوڑا جاتا ہے۔
میرا مقصد ہے کہ اس سفر میں مختلف مقامات پر جا کر لوگوں سے بات کروں، سیشن لوں، اور یہ شعور پیدا کروں کہ Mental Health کوئی شرمندگی یا کمزوری نہیں، بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے جسے سمجھنا اور حل کرنا ضروری ہے۔
تو آپ کے نزدیک سب سے بنیادی سوال یا فوکس کیا ہے؟
میرے نزدیک سب سے اہم بات یہی ہے کہ "Mental Health” کو صرف انفرادی سطح پر نہ دیکھا جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ اس کو "ذہنی کمزوری” یا "پاگل پن” سمجھ کر مسترد کر دیتا ہے۔ اس رویّے سے متاثرہ شخص کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، وہ تنہائی اختیار کر لیتا ہے، اور Stress و Anxiety کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ ایک قسم کا "trap” ہے، سماج کے ردِعمل سے شروع ہو کر تنہائی اور depression تک پہنچنے والا۔ سوشل میڈیا نے اس صورتِ حال کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پہلے لوگ گاؤں یا محلّے کی سطح پر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے۔ اب ہر شخص موبائل کی اسکرین میں قید ہے۔ بات چیت ختم ہوگئی، تعلقات ٹوٹ گئے، اور ذہنی دباؤ بڑھ گیا۔
میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ Awareness کی کمی ہے۔ لوگ جانتے ہی نہیں کہ ذہنی صحت بھی جسمانی صحت جتنی اہم ہے۔
آپ نے ایک نکتہ چھیڑا، سوشل میڈیا کے اثرات۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نفرت انگیزی یا "Ideological Polarization” نے بھی ذہنی صحت پر اثر ڈالا ہے؟
بالکل۔ آج کا ماحول بہت حد تک Ideologically charged ہے۔ نفرت، تعصب، اور دوسرے کو کمتر دکھانے کی فضا نے معاشرے کے ذہنی توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ اب لوگ بات کرنے کے بجائے react کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ، پروپیگنڈا، اور نفرت کے بیانیے نے ذہنی صحت کو تباہ کر دیا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ آج کے نوجوان بے روزگاری، عدمِ تحفظ، اور معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُن کے لیے سوشل میڈیا ایک escape ہے، مگر وہاں وہ اور زیادہ تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
یہی میرا اصل فوکس ہے کہ ذہنی صحت کو فرد کے بجائے سماج کے آئینے میں دیکھا جائے۔
کیا ہندوستان میں، خاص طور پر مسلمانوں میں، یہ مسئلہ زیادہ بڑھا ہوا ہے؟
جی، مسلم سماج میں یہ مسئلہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے،
ایک طرف معاشی اور تعلیمی محرومیاں ہیں، دوسری طرف سماجی امتیاز اور سیاسی دباؤ۔ ان سب عوامل نے ذہنی دباؤ کو بڑھایا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے یہاں “Mental Health” کا ذکر ہی شرمندگی سمجھا جاتا ہے، اس لیے مدد لینے یا بات کرنے کا رواج تقریباً نہیں کے برابر ہے۔
اب ذرا خاص طور پر مسلمانوں کے تناظر میں بتائیے ۔ کیا کوئی ڈیٹا یا رپورٹ موجود ہے جو یہ دکھائے کہ مسلمانوں میں ذہنی دباؤ (Stress) اور بے چینی (Anxiety) تیزی سے بڑھ رہی ہے؟
جی ہاں، بالکل۔ حالیہ رپورٹس میں واضح طور پر سامنے آیا ہے کہ مسلمانوں میں Anxiety اور Stress کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وجہ سب جانتے ہیں، مگر کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی بات کرے تو معاملہ “سیاسی” بن جاتا ہے۔ اس لیے نہ حکومت کے حلقوں میں بات ہو رہی ہے، نہ مسلم سوسائٹی کے اندر۔ اصل دقت یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس ایسے پلیٹ فارمز ہی نہیں جہاں سے ہم اجتماعی طور پر یہ بات رکھ سکیں۔ جو لوگ اس پر بات کر رہے ہیں وہ انفرادی طور پر لکھ رہے ہیں، چھوٹے بلاگز یا سوشل میڈیا پر۔ نتیجہ یہ کہ وہ آواز بڑے پیمانے پر نہیں پہنچ پاتی۔
مسلمانوں میں روزگار Livelihood ( روزگار) کا بحران پہلے ہی موجود تھا، مگر اب سماجی بائیکاٹ اور سیاسی فضا نے معاملہ اور بگاڑ دیا ہے۔ جب کسی کمیونٹی کی روزی روٹی پر زد پڑتی ہے تو اس کے نفسیاتی اثرات لازمی ہیں۔ جب آدمی کے پاس روزانہ کھانے کا وسیلہ ہی نہ ہو، تو وہ فکر و اضطراب میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ یہی اضطراب آگے چل کر ذہنی دباؤ (Stress) میں بدل جاتا ہے، اور جب یہ دباؤ بڑھتا ہے تو وہ بے چینی (Anxiety) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ نماز اور قرآن کی تلاوت ذہنی سکون دیتی ہے۔ کیا واقعی مذہبی عمل ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے؟
جی، اس میں کوئی شک نہیں۔ درحقیقت، پچھلے کچھ برسوں میں لوگ پہلے سے زیادہ Religious ( مذہبی)ہو گئے ہیں ۔
کیونکہ جب انسان کے پاس کوئی سہارا نہیں ہوتا تو وہ خود بخود خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مثلاً، کوئی شخص اگر شدید پریشانی میں ہے اور بات کرنے والا کوئی نہیں، تو وہ نماز پڑھنے لگتا ہے۔ نماز کے دوران اگرچہ خیالات آتے ہیں، لیکن انسان کو یہ احساس رہتا ہے کہ "کوئی تو ہے جو سن رہا ہے” یہی احساس اُس کے لیے تسکین کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
البتہ، یہ ایک وقتی سہارا ہوتا ہے۔ جب معاشرتی یا معاشی دباؤ کم نہیں ہوتا تو وہ تسلسل باقی نہیں رہ پاتا۔ یہ صرف مسلمانوں میں نہیں، غیر مسلم برادریوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔
دباؤ جتنا بڑھتا ہے، رجحان اتنا ہی مذہب کی طرف چلا جاتا ہے۔
اس کی ایک سماجی و نفسیاتی وجہ بھی ہے ۔ جس پر جتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے، وہ اتنا ہی کسی روحانی سہارا کی طرف بھاگتا ہے۔
یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی دباؤ، سماجی تعصب، اور بائیکاٹ۔ یہ سب ذہنی دباؤ کو بڑھاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے سوشل میڈیا کا غلط استعمال لوگوں کو تنہا کر رہا ہے؟
بالکل۔ اور اس کے علاوہ ایک بڑا عنصر بے روزگاری ہے۔
لوگ تعلیم یافتہ ہیں، ڈگریاں رکھتے ہیں، ٹیکنیکل کورسز کیے ہیں، مگر نوکریاں نہیں ملتیں۔ جو تھوڑا بہت کام کر رہے ہیں وہ بھی اتنا نہیں کما پاتے کہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
دوسری طرف، معاشرے میں “دکھاوے” کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
جو طبقہ تھوڑا کماتا ہے، وہ بھی اپنے اوپر غیر ضروری بوجھ ڈال رہا ہے — آج بچت (Saving) تقریباً ختم ہو گئی ہے۔
لوگ iPhone قسطوں پر خرید رہے ہیں، EMI پر چیزیں لے رہے ہیں، مگر سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ دراصل نفسیاتی غلامی ہے، Bound Labor جیسی کیفیت۔ یہ ساری چیزیں ذہنی دباؤ کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔
ایک اور پہلو۔ آج کے پڑھے لکھے والدین، کیا وہ اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں فکرمند ہیں؟
فکرمند تو ہیں، مگر سمجھ کم ہے۔ اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بچے سے پوچھ لیں "کیا بات ہے؟ پریشانی کیوں ہے؟” تو وہ سب کچھ بتا دے گا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہماری سوشل تربیت (Socialization) ہی ایسی ہے کہ ہم Emotionally Expressive نہیں ہیں۔ ہم اندر سے بہت کچھ محسوس کرتے ہیں مگر بول نہیں پاتے۔ اور اگر بول دیں تو ہمیں “کمزور” سمجھا جاتا ہے۔ جب کوئی لڑکا روتا ہے تو کہا جاتا ہے: “لڑکیوں کی طرح کیوں رو رہے ہو؟” یعنی رونا کمزوری کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے مردوں میں Depression زیادہ پایا جاتا ہے — وہ اپنے جذبات چھپاتے ہیں، ظاہر نہیں کرتے۔ یہ Stigma( بدنامی یا سماجی داغ) اتنا گہرا ہے کہ لوگ اپنے قریبی دوست یا بھائی تک سے بات نہیں کرتے۔ سو میں سے شاید پانچ لوگ ہی اپنے دل کی بات کھل کر بتاتے ہیں۔
اگر عمومی طور پر یہ پوچھا جائے کہ ذہنی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے سب سے اہم چیز کیا ہے کوئی ایک مشورہ جو آپ دینا چاہیں؟
سب سے پہلی چیز قبولِ حقیقت (Acceptance) ہے۔ جب تک آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ پریشان ہیں، آپ بہتر نہیں ہو سکتے۔ ہم اکثر ذہنی دباؤ (Stress) میں ہوتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ ہم دکھانا نہیں چاہتے کہ ہم ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لیکن علاج کی پہلی شرط یہی ہے کہ آپ مان لیں کہ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔
قبولِ حقیقت (Acceptance) کے بعد دوسرا مرحلہ جذباتی ربط (Emotional Connection) ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے قریبی لوگوں سے بھی جذباتی طور پر جڑے نہیں ہیں۔ بھائی بھائی ہیں، مگر دلوں میں فاصلے ہیں۔ جب آپ گھر میں بیٹھ کر ماں یا بھائی سے اپنے دل کی بات کر پاتے ہیں، روتے ہیں، بانٹتے ہیں — تو وہ Stress آدھا رہ جاتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی سیکھا ہی نہیں کہ جذباتی تعلق قائم کرنا (Emotionally Connect) کیسے ہوتا ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ذہنی صحت (Mental Health) کی بنیاد جذباتی قبولیت (Emotional Acceptance) اور سماجی ربط (Social Connection) ہے۔ جب یہ دو چیزیں پیدا ہوں گی، تبھی ہم ذہنی صحت کے حقیقی مفہوم کو سمجھ سکیں گے۔
میں پچھلے دس بارہ سال سے روزنامچہ لکھتا ہوں۔ اب حال یہ ہے کہ اگر ایک دن نہ لکھوں تو دل گھبرا جاتا ہے۔ جو بات کسی سے نہیں کہہ پاتا، وہ ڈائری میں لکھ دیتا ہوں۔ یہی میرے لیے عافیت کا ذریعہ ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈائری لکھنے کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ ہم اپنے جذبات کو بہ آسانی کسی کے سامنے بے نقاب نہیں کر پاتے۔ لکھنے سے جذبات واضح ہوتے ہیں اور خیالات منظم ہو جاتے ہیں۔ میں خود جب شروع میں بہت پریشان تھا تو میں نے لکھنا شروع کیا۔ لکھنے سے مجھے خود اعتمادی ملی اور میں بولنے کے قابل ہوا۔
سچ یہ ہے کہ لکھنا مینٹل ہیلتھ کے لیے بہت مفید ہے۔ جب ہم اندر ہی اندر سب کچھ دباتے رہیں تو وہ چیزیں ذہن میں بار بار گھومتی ہیں، پریشان کرتی ہیں اور بالآخر دماغی بوجھ بن جاتی ہیں۔ جب آپ وہ سب لکھ کر یا کسی سے کہہ کر باہر نکالتے ہیں تو آپ کو ریلیف ملتا ہے ۔ بالواسطہ طور پر وہی آرام بنتا ہے جو جسمانی طور پر کسی دباؤ کو خارج کرنے کے بعد آتا ہے۔ اس کا سائنسی پس منظر بھی ہے: اظہارِ جذبات ذہنی دباؤ کم کرتا ہے۔
جب بات آئے کہ اسٹریس کب اور کیوں ہوتا ہے؟ تو بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی اس چیز پر قابو نہیں رکھ پاتا جو اس کے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔ جب آپ کسی چیز پر قابو رکھتے ہیں اور اسے پورا نہیں کر پاتے تو وہ پریشانی بن جاتی ہے۔ جب یہ حالت طویل ہو جائے تو اسٹریس بڑھتا اور پھر انزائٹی بن جاتی ہے۔ یہ حالت آپ کے رویّے اور طرزِ زندگی کو بدل دیتی ہے: دوستوں سے کم میل ملاقات، الگ رہنے کی ترجیح، تنہائی پسند ہونا۔
اگر اس شعور کہ( ذہنی مسائل عام ہیں اور ان پر بات ہونی چاہیے) کی کمی برقرار رہی تو مستقبل میں معاشرتی سطح پر کئی نقصانات نکل آئیں گے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کمیونٹی کا احساس کمزور ہوگا۔ شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ کمیونٹی فیلنگ بہت کم رہ گئی ہے۔ جب دو لوگ مل کر اپنی پریشانی بانٹیں تو صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے؛ مگر اگر ہر ایک الگ رہ کر پریشان ہو تو صورتحال مزید بگڑتی ہے۔
اس کا اثر طلبہ پر بھی واضح ہے، خاص طور پر ہاسٹل لائف والے طلبہ پر۔ ہاسٹل میں رہنے اور گھر میں رہ کر پڑھنے والوں کی مینٹلٹی مختلف ہوتی ہے۔ ہاسٹل کی زندگی کا نفسیات پر اثر متعدد وجوہات سے ہوتا ہے: خاندان کی توقعات، آزادی، اور سوشل کنکشن میں فرق۔ ہاسٹل میں والدین کی امیدیں اور سوسائٹی کا دباؤ ایک سنگین توقع بنتا ہے۔ جب بچہ ان توقعات پر پورا نہیں اترتا تو اس کا تناؤ بڑھ جاتا ہے۔
ہاسٹل کی آزادی نوجوان کو انفرادی زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ وہاں روزمرہ کے تعلقات اور مینجمنٹ اس طرح نہیں بنتے جیسے گھر میں بنتے ہیں ۔ دادا، نانا، پڑوسی، رشتہ دار سب کا روزانہ کا رابطہ کم رہ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوشل کنکشن ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور نوجوان انفرادی طور پر زیادہ وابستہ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں (مثلاً انجینئرنگ یا ٹیکنیکل کورسس) suicidal رِیٹس زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ وہاں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے اور دباؤ مسلسل برقرار رہتا ہے۔ سوشل سائنس یا کم مقابلہ والے شعبوں میں یہ شرح کم رہی ہے۔ یونیورسٹی سطح پر حالیہ رپورٹس اور تحقیقی کمیشنز نے بھی اس رجحان پر نشاندہی کی ہے۔
(جاری)
