This image was created using AI, not an actual photograph.
مرادآباد/لکھنؤ — 26–27 اکتوبر 2025: ( روایت نیوز ڈیسک)
پاکبڑا، مرادآباد کے ایک مدرسہ نسواں کے بارے میں خبر پھیلی کہ آٹھویں جماعت میں ترقی کے لیے 13 سالہ طالبہ سے “کنوارپن سرٹیفکیٹ” مانگا گیا۔ یہ دعویٰ کچھ پورٹلز اور سوشل میڈیا پر تیزی سے چلا اور عمومی تاثر یہ بنا کہ مدارس میں اس طرح کی شرط عام ہے۔ مدرسہ انتظامیہ نے اس کی جڑ سے تردید کی۔ سماجوادی پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ضیاءالرحمن برق نے بھی کہا کہ نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ مدارس کے قواعد میں اس کا کوئی وجود ہے؛ معاملہ حساس ہے، فیصلہ صرف غیرجانب دار تحقیق سے ہونا چاہیے۔

مدرسہ کے ایک سینئر استاد نے واضح کیا کہ “ایسے الفاظ زبان پر لانا ممکن نہیں۔ کسی بچی پر اس نوعیت کا الزام غیر اخلاقی بھی ہے اور ناقابلِ تصور بھی۔” ان کے مطابق مدرسہ طالبات کی عزت اور تحفظ کو اولین سمجھتا ہے، داخلہ اور قیام کے اصولوں میں عفت کی جانچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ادارہ تحقیقات میں مکمل تعاون دے گا تاکہ اصل صورتِ حال سامنے آجائے۔
اہلِ خانہ نے مرادآباد پولیس کو شکایت دی ہے۔ پولیس نے وصولی کی تصدیق کی ہے اور ابتدائی جانچ جاری ہے۔ کچھ رپورٹس میں ایف آئی آر کا ذکر ہے، کچھ میں “ابھی نہیں” کہا گیا؛ سرکاری حیثیت یہ ہے کہ تفتیش جاری ہے اور اگلا قدم ثبوت کی روشنی میں اٹھایا جائے گا۔ مدرسہ کا کہنا ہے کہ وہ ریکارڈ پیش کرے گا اور جو بھی غلط فہمی ہے اسے شفاف طریقے سے دور کیا جانا چاہیے۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ صاف رہنا چاہیے: دینی و اسکولی داخلوں میں “کنوارپن سرٹیفکیٹ” نامی کوئی ضابطہ موجود نہیں۔ اسلام میں طالبات کی حرمت، ستر اور عزت بنیادی اصول ہیں؛ رسوائی یا تخفیف پر مبنی شرط مذہبی روایت کے خلاف ہے۔ لڑکیوں کے مدارس میں قواعد صحت، حفاظت، سرپرست کی ذمہ داری اور پردہ کے نظم پر مبنی ہوتے ہیں۔ طبی معائنہ بھی اگر کہیں ہو تو عمومی صحت اور رہائشی نظام تک محدود رہتا ہے، عفت کی “جانچ” ادارہ جاتی عمل نہیں۔
اس خبر کی پیشکش میں کچھ انگریزی پلیٹ فارمز نے سنسنی کو ترجیح دی جس سے ایسا لگا جیسے یہ مدارس کا عمومی چلن ہے۔ یہ تاثر غلط ہے۔ یہ ایک انفرادی تنازع ہے جسے اب پولیس دیکھ رہی ہے؛ اسے پورے مذہبی و تعلیمی نظام پر منطبق کرنا ناانصافی ہے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ مدارس کی مثبت مثالیں، جہاں بچیاں محفوظ ماحول میں پڑھتی ہیں، نمایاں نہیں ہوتیں؛ مگر الزام سامنے آئے تو پورا بیانیہ مدارس مخالف بنا دیا جاتا ہے۔
اس مرحلے پر ذمہ دارانہ راستہ یہی ہے کہ ثبوت کا انتظار کیا جائے، کم عمر بچی کی ذہنی سلامتی کو مقدم رکھا جائے، اور اداروں کی ساکھ پر تبصرہ تحقیق کے بعد کیا جائے۔ خلاصہ یہ کہ: الزام موجود ہے، مگر مدرسہ اور منتخب نمائندے کی تردید واضح ہے؛ سرکاری طور پر تفتیش جاری ہے؛ اور مدارس میں ایسی شرط کا نہ مذہبی جواز ہے نہ ادارہ جاتی روایت۔ یہ خبر اتنی ہی ثابت ہے، اس سے آگے کا حصہ تحقیق کے نتیجے سے وابستہ ہے۔
