لال قلعہ کے قریب کار دھماکہ: 8 ہلاک، ملکیت کی جانچ جاری؛ سماجی و سیاسی شخصیات کا ردِعمل
نئی دہلی، 11 نومبر:( روایت نیوز ڈیسک)
لال قلعہ کے نزدیک پیر کی شام ایک ہنڈائی آئی 20 کار میں دھماکہ ہوا جس میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ گاڑی نیتا جی سبھاش مارگ پر ٹریفک سگنل پر رکی تھی جب دھماکہ ہوا۔ پولیس کے مطابق گاڑی ہریانہ نمبر پر تھی اور تفتیش سے معلوم ہوا کہ گاڑی کا موجودہ مالک دیویندر سنگھ ہے، جس نے اسے ڈیڑھ سال قبل سلمان سے خریدا تھا۔ این آئی اے، این ایس جی اور فورنسک ٹیمیں موقع سے شواہد جمع کر رہی ہیں، جبکہ دہلی پولیس نے یو اے پی اے اور دھماکہ خیز مواد ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے عوام سے غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہوں سے بچنے کی اپیل کی ہے۔

سماجی و سیاسی ردِ عمل: مسلم دانشوروں اور سماجی رہنماؤں نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ ہے اور اس کی غیر جانب دارانہ تفتیش ہونی ضروری ہے۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی (صدر مسلم پولیٹیکل کونسل) نے بتایا کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ انصاری روڈ کی عمارتیں تک لرز گئیں۔ انہوں نے کہا: “یہ واقعہ غیر متوقع تھا اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں گجرات، ہریانہ اور یوپی میں کئی گرفتاریاں ہوئیں، اس سے ظاہر ہے کہ ایجنسیوں کے پاس ان پٹ موجود تھا، پھر بھی حفاظتی نظام کیوں فعال نہیں ہوا؟ یہ سیدھا سیدھا نظام کی ناکامی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: “عام طور پر ایسے واقعات کے بعد بغیر تحقیق ایک خاص کمیونٹی کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کئی واقعات میں عدالتوں نے بعد میں مسلمانوں کو بے قصور قرار دیا۔ اگر وہ بے قصور تھے تو پھر قصوروار کون تھا؟ اور عدالتیں ذمہ داری طے کیوں نہیں کرتیں؟ قانون کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ کسی بھی واقعے کو مذہبی زاویے سے دیکھنا غلط ہے۔”
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان (سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن) نے کہا: “یہ افسوس ناک واقعہ ہے اور قابلِ مذمت ہے، مگر اس کے پس منظر میں معاشرتی رویے کا ایک مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی واقعے کے بعد ایک خاص طبقے کے نام فوراً سامنے لائے جاتے ہیں، جبکہ اصل تحقیق ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہوتی۔”
انہوں نے برطانیہ میں حالیہ ایک مثال دیتے ہوئے کہا: “ایک شخص نے میٹرو میں حملہ کیا، مگر نام ظاہر نہیں کیا گیا تاکہ غلط تاثر نہ پھیلے۔ بعد میں تصدیق ہوئی کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ یہی احتیاط یہاں بھی ضروری ہے۔ بعض واقعات کا استعمال سیاسی فائدے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔”
سید سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی ہند) نے کہا: “ہم واقعے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ بہت افسوس ناک ہے۔ اللہ رحم کرے۔ اس کی غیر جانب دارانہ تفتیش ضروری ہے اور قصورواروں کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ ایسے واقعات بار بار کیوں پیش آتے ہیں اور ان کی روک تھام میں کوتاہی کہاں ہے۔”
تفتیشی اداروں نے کہا ہے کہ معاملہ تمام زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے اور کسی پیشگی نتیجے یا تاثر تک پہنچنا مناسب نہیں۔
تحقیقات جاری ہیں۔
