مدارسِ اسلامیہ اور نصابِ تعلیم: احمد جاوید کی تازہ کتاب پر گفتگو
غالب شمس
احمد جاوید اردو صحافت کی ایک معتبر اور نمایاں شخصیت کا نام ہے۔ تیس برس سے زیادہ عرصے پر محیط ان کی صحافتی اور ادبی زندگی اردو دنیا میں ایک روشن ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی پیدائش ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۰ء کو کوٹھیا پنڈول، ضلع مدھوبنی (بہار) میں ہوئی۔ سنگم روزنامہ سے کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے وہ قومی آواز، قومی تنظیم، ہفت روزہ نئی دنیا (اردو)، نئی زمین (ہندی)، آج کا اخبار (ہندی)، ہندوستان ایکسپریس، انقلاب اور کئی دوسرے معتبر اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے اور ادارت کے مختلف مناصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کا کالم فکرِ فردا اردو صحافت میں فکری رہنمائی اور بصیرت کی علامت مانا جاتا ہے۔

تصنیف و تالیف کے باب میں بھی احمد جاوید کی کاوشیں غیر معمولی ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں میرے حصے کی دلّی اور قصہ چھٹے درویش کا (2021)، مبادیاتِ صحافت و ادارت (2020)، تلخ نوائی (2020)، فکر فردا (2018)، آسماں تہہ خاک (2016)، صحرا بھی گلزار لگے (2006)، ساشیا کی کہانی (2005)، بارہ ماسہ محبی: اردو میں بارہ ماسہ کی روایت کا ایک گمشدہ باب (2022)، ہندوستان: ایک ہزار سال، ایک نقطۂ نظر، سفر آگے حد پرواز سے (2022) اور مولانا عبد الوحید صدیقی: مجاہدِ آزادی اور معمارِ صحافت (2023) شامل ہیں۔ ان کے موضوعات میں تاریخ، سیاست، سوانح، ادب اور صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی و فکری مسائل بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
مدارس اور دینی نصاب پر احمد جاوید کی نظر ہمیشہ سے گہری اور محققانہ رہی ہے۔ اسی بصیرت اور عمیق مطالعے کا ثمر ان کی تازہ تصنیف مدارسِ اسلامیہ اور نصابِ تعلیم ہے، جو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ایک جامع دستاویز ہے، جس میں کئی ایسے حقائق منکشف کیے گئے ہیں جو اب تک اندازوں اور قیاس آرائیوں کی گرد میں دبے ہوئے تھے۔ مصنف نے رائے زنی کی سطح سے آگے بڑھ کر اعداد و شمار اور مستند حوالوں کے ذریعے وہ حقیقت آشکار کی ہے جسے عرصہ دراز تک محض افواہ سمجھا جاتا رہا۔ مدارس کے موضوع پر اس درجہ جامع، معتبر اور سچائی پر مبنی تصنیف اس سے قبل شاذ ہی منظرِ عام پر آئی ہوگی۔
روایت نے اسی کتاب کے حوالے سے احمد جاوید سے ایک تفصیلی مکالمہ کیا ہے، جو ناظرین و قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

1. مدارس اور نصاب تعلیم پر یہ کتاب لکھنے کا محرک اور ضرورت کیا تھی؟
اس کتاب کی ضرورت میرے ذہن میں اسی وقت سے گردش کررہی تھی ،جب سینٹرل مدرسہ بورڈ کی تجویز زیربحث تھی ۔ ۲۰۰۹ءمیں حق تعلیم ایکٹ آیا تو اس کی ضرورت زیادہ شدت سے محسوس ہوئی۔ لیکن وقت اور وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ ویسے بھی ہر کام کا ایک وقت ہے۔ایک حسن اتفاق کے نتیجے میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسڈیز کے چیئر مین ڈاکٹر محمدمنظور عالم کی توجہ سے یہ کام۲۰۲۲ء میں شروع ہوا۔ آپ جانتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں رائج ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جاتارہا ہے کہ ملک کےمدارس اسلامیہ بچوں کے بنیادی حقوق کی راہ میں حائل ہیں،وہ ان کو رائج العصر بنیادی تعلیم(Univarsal Elementary Education) نہیں دیتے۔ مدارس کےنصاب، ان کی صلاحیت ، وسائل اور رسائی ( Syllabus, Capacity, Resource, and Reach)کےتعلق سے متضاددمتصادم دعوے کئے جاتے ہیں ۔ہم چاہتے تھے کہ غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں دور ہوں، مدارس اور ان کے نصاب و نظام تعلیم کا ایک ایسا مطالعہ پیش کیا جائے جو اپنا محاسبہ آپ کرنے کے بھی کام آئے اورمسئلہ کے دوسرے فریقوں کے سامنے بھی رکھا جاسکے۔
2. مدارس کی تعداد اور طلبہ کے تناسب سے متعلق سب سے بڑی غلط فہمی کون سی ہے، اور آپ کی تحقیق اسے کیسے چیلنج کرتی ہے؟
مدارس کی تعداد اور طلبہ کے تعلق سے عام لوگ اور ذرائع ابلاغ تو کجا، سرکاری ایجنسیاں تک متضاداعدادوشمار(Contradictory datas) پیش کرتی ہیں، ایک محکمہ کچھ کہتا ہے، دوسرا کچھ اوردعوی کرتاہے۔سب سے بڑی اور انتہائی گمراہ کن غلط فہمی یہ ہے کہ صرف چار فیصد مسلم بچے مدارس میں جاتے ہیں۔ میرا مطالعہ اور دستیاب اعدادوشمارکا تجزیہ بتاتا کہ ملک گیر سطح پر ۲۰سے ۲۵فیصد مسلم بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور یہ تناسب ہر جگہ یکساں نہیں ہے، بعض ریاستوں میں یہ تعداد پچاس ساٹھ فیصد تک ہے۔ اسی طرح مدارس کی تعداد کوئی چوبیس پچیس ہزار بتاتا ہے اور کئی ایجنسیاں لاکھوں میں پروجیکٹ کرتی ہیں ۔جبکہ یہ تعدادکم وبیش ساٹھ ہزار ہے۔مرکزی وزارت اقلیتی امورنے ملک میں مدارس کی تعداد ۲۴ہزار بتائی جبکہ حکومت اتر پردیش صرف یوپی کےغیرمنظور شدہ مدارس کی تعداد ۸ہزار سے زائد بتاتی ہےجبکہ اترپردیش مدرسہ بورڈکے ۱۲؍ ہزارمنظورشدہ مدارس ان کے علاوہ ہیں۔
3. نصاب تعلیم کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی کمزوری آپ کے نزدیک کیا ہے؟
مدارس اسلامیہ کے نصاب و نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت اس کادین اساس ہونااور صد فیصد فری ایجوکیشن ہے۔ یہ مدارس لاکھوں غریب و محتاج بچوں کے طعام و قیام کابوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔سماج کے آخری صف کے آدمی کو پہلی صف بلکہ امامت کے مصلّےپر پہنچادیتے ہیں۔جس کے لیے ملک و قوم کوان کا احسان مند ہونا چاہیے۔لیکن ان کی ایک بڑی تعداد وقت سے پیچھے رہ گئی ہے۔نصاب اوروسائل کے معیار کی جانب سے غفلت ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔نصاب کی تیاری ونگرانی کاایک ایسا مضبوط و فعال نظام سوائےکیرل کےملک میں کہیں اور نظر نہیں آتاجہاں نہ تو کوئی مدرسہ اس سے باہر ہے اور نہ کوئی بچہ بنیادی دینی تعلیم کے دائرے سے باہر۔
4. مختلف نصاب (درس نظامیہ، جدیدہ، عالیہ وغیرہ) میں سے کون سا ماڈل آج کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے؟
برصغیر کےچار متفرق نصاب اور متعدد رجحانات کے ۲۸ نمائندہ نمونوں کو سامنے رکھ کر ہم نے پایا کہ ان میں سے کئی بہت اچھے ہیں ۔تاہم وقت کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ، آسان اورقابل عمل ماڈل جامعہ الازہر کا نصاب ہےجس کو دنیا کے کئی ملکوں اور خودبرصغیر کے کئی مدارس نے اپنایاہے اوریہ ہمارے درس نظامی سے غیر معمولی مطابقت رکھتا ہے۔ کتاب میں ایک متبادل درس نظامیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ نصاب میں ماضی کی طرح حساب وہندسہ وغیرہ کو شامل کرکےمضامین درس کو درجہ بدرجہ مرتب کرنے اور کل ۱۳ سال کےکورس میںفضیلت یا دورہ حدیث سے قبل کی آخری دو جماعتوں میں کم ازکم کسی ایک زبان کے ادب اور منطق و فلسفہ کو رکھنے سے درس نظامیہ ازخود سی بی ایس ای کے معیار کو پالیتا ہے۔اسی کو ماضی میں ایف اے(موقوف علیہ) اور اب ہائرسیکنڈری(ثانویہ عالیہ)کہا جاتا ہے۔ دورہ حدیث(فضیلت)اس پر ایک اضافہ ہےجوبنیادی طورپرایک ٹائٹل ڈگری یا ڈپلوما ہےاور صحیح معنوں میں یہ روایت حدیث کی سندکا تسلسل ہےجو شیخ اپنے شاگروں کو منتقل کرتاہے ۔
5. برصغیر کے نصاب اور عالمی جامعات جیسے الازہر یا مدینہ یونیورسٹی کے نصاب میں سب سے نمایاں فرق کیا ہے؟
برصغیر کے نصاب اورعالمی جامعات کے نصاب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں جدیدعلوم کی کمی کے باوجود کتابوں کا بوجھ زیادہ ہے۔ پھر یہاں جدید علوم شامل نصاب تو کئے جارہے ہیں، لیکن نصابی مواد اسلامی نقطہ نظر سے تیار نہیں کئے گئے ہیں اورعام طور پر پڑھانے والے بھی اس نقطہ نظر سے پڑھانے کی صلاحیت اور تربیت نہیں رکھتے۔ ماضی میں مدارس میں حساب، ہندسہ ، علوم طبعیہ و تمدن(Math , Geometry, Physics & Civics) علمائے دین ہی پڑھاتے تھے لیکن اب الا ماشاء اللہ ان میں ان علوم سے ایسی وحشت ہے کہ مت پوچھیے۔ اس کم حوصلگی نے نسلوں کو تباہ کیا ہے۔اب ان علوم کے اساتذہ کی تلاش ہوئی تو مبہوت ہیں کہ کیا کریں۔
6. نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 مدارس کے مستقبل پر کیا اثر ڈال سکتی ہے؟
نئی تعلیمی پالیسی تو خیر سے ایک اہدافی دستاویز(Directive document) ہے جس میں بہت اچھی اچھی باتیں اور بڑے اونچے دعوے کئے گئے ہیں ۔ اس کے نتائج اس پر منحصر ہیں کہ اسےعمل میں کیسے لایا جاتا ہے ۔بنیادی اہمیت ومعنویت آئین کی دفعہ ۲۱؍اور حق تعلیم ایکٹ۲۰۱۰ء کی ہے جن کے فوری اثرات و مضمرات بھی ہیں اور دیرپا اور دور رس اثرات و نتائج بھی ۔ ابھی تک ۶ سے ۱۴ سال (درجات ۱۔۸) کے بچوں کی تعلیم لازمی ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں اس دائرے کو ہائر سیکنڈری تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیاہے۔ مدارس پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ حکومت کے ارادے سے زیادہ اہل مدارس کی خواہش اور عمل پر منحصر ہے۔آئین و قانون ہمیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو پڑھانے کا حق دیتا ہےلیکن وہ رائج العصر بنیادی تعلیم(UEE) سے مشروط ہے۔
7. مدارس کی جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ کیا تعلیمی معیار میں بھی فرق پایا جاتا ہے؟
ہاں، ملک کے الگ الگ صوبوں اور علاقوں میں الگ الگ رجحانات پائے جاتے ہیں اور یہ عین فطری امر ہے۔ اسی طرح مختلف جغرافیائی حدود میں تعلیم کا معیار بھی مختلف ہے اور ایسا صرف مدارس میں ہی نہیں، عام اسکول کالجوں میں بھی ہے۔ ملک کا آئین و قانون پورے ملک میں یکساں معیار اور ہرشہری کے لیے یکساں مواقع کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وحدت میں کثرت (Diversity)کی قیمت پر ایسا کیا جائے۔ہمارے آئین میں تعلیم ریاستوں کی ذمہ داریوں کی فہرست میں شامل ہے۔
8. پڑوسی ممالک (پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال) کے مدارس کا ماڈل ہندوستانی مدارس سے کس طرح مختلف یا مشابہ ہے؟
وہی سارے رجحانات اور ماڈل ہمارے پڑوسی ممالک میں بھی موجود ہیں جو یہاں پائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خطہ کی روایات اور تاریخی و سیاسی عوامل ہیں جن میں بدقسمتی سے
آزادی کے ۷۸سال بعد بھی تبدیلی نہیں آئی۔دوسری بڑی وجہ ان کے دینی مراکزو مراجع ہیں جو آج بھی وہی ہیں جو ماضی میں تھے اور وہ ہندوستان میں ہی واقع ہیں۔
9. ملک کے سب سے مؤثر اور پرانے دینی تعلیمی ماڈل کے بارے میں آپ کیا سمجھتے ہیں ،کیا وہ آج کے تعلیمی تقاضوں کے مطابق ہے؟
ملک کا قدیم ترین اور سب سےمؤثر دینی تعلیمی ماڈل وہ ہے، جس کو درس کہا جاتا ہے،یہ مسجد بنوی ، مسجد کوفہ اور مسجد دمشق سے نکل کر دنیا میں پھیلا۔اس کا نمونہ آپ کیرل کی مساجدمیں آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔اسی کی ترقی یافتہ شکل بغداد کا مدرسہ نظامیہ تھاجو ترکوں کی فتوحات کے ساتھ ہندوستان آیا۔ برصغیر میں اس نصاب کے دوسرے دور میں اکبرکے وزیر میرفتح اللہ شیرازی کےشاگردوں نے وقت کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ نصاب رائج کیا۔یہ رجحان اگر اسی طرح آگے بڑھتا رہتا تو آج یہ سوال نہیں اٹھتا کہ کیا دینی تعلیم کا یہ ماڈل آج کے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ عہدبرطانیہ میں مغرب کے تہذیبی یلغار کے ردعمل میں یہاں تعلیم میں دین اوردنیا کی تفریق آئی، مدارس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کی مزاحمت کی ذمہ داری بھی لے لی اور درس نظامیہ کےمروجہ ماڈل پر مبنی نیا ، مختصراور آسان کورس اپنایا جس کا مقصد کم وقت میں زیادہ سے زیادہ واعظ و مبلغ پیداکرناتھا لیکن یہ آج کے تعلیمی تقاضوں کو پورے نہیں کرتا۔ یہ احساس انیسویں صدی میں ہی پیدا ہوگیا تھا، جس سے اصلاح نصاب مدارس (ندوہ)کی تحریک پیدا ہوئی لیکن کئی وجہوں سے وہ خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوئی اور مدارس کے کئی دھارے بن گئے۔
10. مدارس کی بقا اور استحکام کے لیے فوری اور عملی اقدامات کیا ہونے چاہئیں؟
سب سے پہلے تو مدارس میں بنیادی تعلیم کے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نصاب اور وسائل دونوں میں رائج العصرمعیار کی پابندی قانوناً لازمی ہے اور یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ معلموں کی لیاقت سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی تربیت کا نظم بھی ضروری ہے۔ جن مدارس میں ایک ہی بار فراغت کی سند دی جاتی ہے، وہ اپنا یہ طریقہ ترک کریں، ہر درجے اور ہر مرحلے کا امتحان لیں اور اس کی سندیں جاری کریں۔ جو مدارس تعلیمی ادارے کے طور پر کسی مجاز محکمہ سے منظور نہیں ہیں، ان کو چاہیے کہ منظوری حاصل کریں۔ جو ایسا نہیں کرسکتے ، وہ غیررسمی تعلیم کے لیے مراکزاور پورہوم(Poorhome) کے طور پر مطلوبہ شرائط کے ساتھ کام کریں اور ان میں قیام پذیر۶سے ۱۴ سال کےبچوں کی رسمی تعلیم کے لیے مقامی اسکولوں اور منظورشدہ مدرسوں کی خدمات لیں۔ملک کےموجودہ آئین و قانون میں مدارس کی بقا اور ان کے استحکام کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔
11. کیا مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں کے درمیان اشتراک ممکن ہے؟
ہاں! کیوں نہیں۔خود اسلام کی تاریخ میں دونوں روایت( سرکاری اور غیر سرکاری مدارس) موجود ہے۔دنیا کی پہلی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ بغدادسلاطین سلاجقہ کے وزیر نظام الملک طوسی نے سرکاری خزانے سے بنوایا تھا لیکن وہ ایک آزاد و خود مختارادارہ تھا جس کے استحکام کے لئے اوقاف قائم کئے گئے تھے۔اگلی صدیوں میں دجلہ کے کنارے واقع اسی مدرسہ کی طرز پر یوروپ کی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور خود ہماری یونیورسٹیوں کو بھی اسی ماڈل پرخودمختاری (Autonomy)دی گئی۔ وطن عزیزمیں مدارس اورسرکاری تعلیمی اداروں میں تعاون کی بہترین مثال کیرل ہے جہاں ۱۹۶۰ ء کے عشرے میں اسکول کے اوقات صبح نوبجے سےکردیے گئے تاکہ فجر سے ۸ بجے تک مکاتب و مدارس میں دینی تعلیم لینے والے طلبہ و طالبات اسکول جاسکیں۔اسی تعاون نےسماجی ترقی کے انڈیکس میں صحت کی دیکھ بھال،غریبی کے خاتمے اوربنیادی تعلیم میں کیرل کو ملک میں سب سے اونچا درجہ اور بچوں پر شفقت میں یونیسیف اور عالمی تنظیم صحت کی رینکنگ میں دنیا میں پہلا مقام دلایا۔جو اس نے برسوں سے برقرار رکھا ہوا ہے۔
12. اگر آپ کو کسی ایک پہلو پر فوری اصلاح کا اختیار ملے، تو وہ کیا ہوگی؟
کمیونٹی کے ہربچے کودینی تعلیم کے دائرے میں لانا ،بچوں کی رائج العصر بنیادی تعلیم کا معیاری انتظام کرنا اوراس کے لیےہرمضمون کے اہل اور تربیت یافتہ اساتذہ کی خدمات کا حصول ہماری پہلی ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ بچوں کی یہی تعلیم ان کی آئندہ زندگی کے ہرامکان کی بنیاد ہوتی ہے۔
13. مدارس کے فضلا کو معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کے لیے کس قسم کی مہارتوں کی ضرورت ہے؟
مدارس کے فاضل کی صلاحیتیں دینی مسائل کے علم تک محدودہرگز نہ ہوں۔ان میں علم دین کے ساتھ ساتھ ساتھ وہ تمام مہارتیں مطلوب ہیں جو کمیونٹی کی رہنمائی کے فرائض ادا کرنے اور کسی بھی شعبے میں ایک باعزت بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
14. اس تحقیق کے بعد آپ کے مدارس کے بارے میں ذاتی تاثر میں کیا تبدیلی آئی؟
اس مطالعہ کے دوران ہماری کئی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور مدارس کے تعلق سے میرے تاثر میں بھی کافی تبدیلی آئی۔ مثال کے طور پرہم اس سے پہلےیہ تصور میں نہیں کرتے تھے کہ مدارس اسلامیہ کشمیر سے کنیا کماری تک کم وبیش ملک کے ہر حصے اور ہر قابل ذکر مسلم آبادی میں موجودہیں، ان کی تعداد ۶۰ہزار سے زائد ہے اور یہ ایک کروڑ سے زائد بچوں کی تعلیمی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ یہ انکشاف بھی حیران کن تھا کہ ۶۰ہزار میں صرف ۲۲۹۱۶ مدارس منظور شدہ ہیں اور ان میں بھی صرف ۴۴۱۳ مستقل طور پر تسلیم شدہ اور مالی امداد یافتہ ہیں۔ پھر یہ کہ ملک میں متعدد درالعلوم یونیورسٹیوں کے الحاق یافتہ ہیں اور وہ یوجی سی کے معیار پر گرانٹ پاتے ہیں۔اسی طرح یہ کہ مدارس کے ابتدائی و متوسطہ درجات میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔سب سے خوشگوار انکشاف یہ ہے کہ ملک میں ایک ریاست ایسی بھی ہے جہاں کا کوئی مسلم بچہ نہ تو دینی تعلیم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ عصری تعلیم سے محروم ومہجور۔اور یہاں کی مسلم کمیونٹی یہ کام ازخود کرتی ہے، سمستھ کیرل اسلامی تعلیمی بورڈ کے امتحانات دنیا کاسات ملکوں میں ایک ساتھ منعقد کیا جانے والاسب سے بڑا اجتماعی امتحان (Unified Exams) ہے لیکن اس کی شفافیت کا یہ حال ہے کہ اس کی پچاس سال سے زائد کی تاریخ میں اس پرکبھی کسی کرپشن کا الزام نہیں آیا۔
15. یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ ایک عام قاری اور پالیسی ساز کون سا بنیادی پیغام لے کر اٹھے؟
کتاب کےعام قاری اور پالیسی سازوں کوبھی چاہیے کہ مسلمانوں کی خود اختیاری سماجی ذمہ داری کے جذبے کی بدولت وجود میں آنے والےدنیا میں فری ایجوکیشن کے اس سب سے بڑے نظام کی قدر کریں ،غریبی اور محرومی کی چکی میں پستے اس ملک و قوم کے لیےاس کی افادیت و معنویت کو سمجھیں اور ان کےمعیارکو بہتر بنانے اور ان کی افادیت کو بڑھانے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں۔اس تعاون کے ثمرات کیرل میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاںکی شرح خواندگی ملک میں سب سے اونچی (۹۶فیصد)ہے اور جس کو بچوں کی فکر اور ان پر شفقت کےیونیسیف کے انڈیکس میں دنیا میں پہلا مقام حاصل ہے۔
