مدارس بند کرو، مولویوں کو جیل بھیجو، این آر سی نافذ کرو” بی جے پی ایم ایل اے یتنال کا اشتعال انگیز بیان
نئی دہلی / بنگلورو:
لال قلعہ کے قریب ہونے والے ہولناک دھماکے میں کئی افراد کی ہلاکت کے بعد پورے ملک میں دکھ، غم اور اضطراب کی فضا ہے۔ شہریوں، سماجی تنظیموں اور مذہبی رہنماؤں نے اس المیے کی بھرپور مذمت کی ہے اور متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہوئے ملک میں امن و بھائی چارہ کی اپیل کی ہے۔

تاہم اس سوگوار ماحول کے بیچ، کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے باسنا گوڈا پٹیل یتنال نے ایک انتہائی اشتعال انگیز بیان دے کر تنازع پیدا کر دیا۔
یتنال نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مدارس پر پابندی لگائے، مولویوں کو گرفتار کرے، مساجد پر نگرانی بڑھائے، مسلمانوں کے لیے این آر سی نافذ کرے اور "دہشت گردی سے نرم رویہ رکھنے والے” صحافیوں و ادیبوں پر کڑی نظر رکھے۔
انہوں نے اپنے ایک 12 نکاتی منصوبے میں مزید کہا کہ: “ایسے تمام مدارس بند کیے جائیں جو بچوں کو انتہا پسندی سکھا رہے ہیں۔ ایسے مولویوں کو جیل میں ڈالا جائے جو ملک مخالف نظریات پھیلا رہے ہیں۔ جو لوگ دہشت گردوں کے حامی ہیں، چاہے وہ صحافی ہوں یا سیاست دان، اُن پر مسلسل نگرانی رکھی جائے۔ پاکستانی بیانیہ پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس حذف کیے جائیں۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ شہریت رجسٹری (NRC) بنائی جائے۔ مساجد کے خطبات کا ریکارڈ رکھا جائے۔ بیرونِ ملک رہنے والے اُن بھارتی نژاد شہریوں کے OCI کارڈ منسوخ کیے جائیں جو بھارت مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ این جی اوز اور کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ حلال سرٹیفکیشن ایجنسیوں پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ وہ دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں، وکیلوں اور پیشہ ور افراد کے لائسنس منسوخ کیے جائیں جو ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے والی عمارتیں منہدم کی جائیں۔ آدھار کارڈ کے نظام کو مزید سخت کیا جائے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔”
یتنال نے آخر میں لکھا: “دشمن پر وار کرو، اس سے پہلے کہ وہ تم پر وار کرے۔ دہلی دھماکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن ہمارے درمیان ہے۔ ہمیں پہلے قدم اٹھانا ہوگا۔”
تفتیشی ایجنسیوں کی وضاحت
مرکزی تفتیشی اداروں — این آئی اے (NIA) اور انٹیلی جنس بیورو (IB) — نے واضح کیا ہے کہ دہلی اور فریدآباد کے واقعات کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
ابھی تک کسی مدرسے، مسجد یا مذہبی ادارے کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ ذرائع کے مطابق فریدآباد سے برآمد شدہ دھماکہ خیز مواد کے کچھ تکنیکی نمونے دہلی دھماکے سے مماثل ضرور پائے گئے ہیں، مگر تعلق ثابت نہیں ہوا۔
ایک افسر نے کہا، “یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دونوں واقعات ایک ہی نیٹ ورک سے جڑے ہیں۔ تفتیش جاری ہے، اور کسی ادارے یا طبقے کو نشانہ بنانا درست نہیں۔”
سیاسی و سماجی ردِعمل
ملک کے کئی حلقوں نے یتنال کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ، اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے بیانات ملک میں فرقہ وارانہ فضا کو بگاڑنے اور اقلیتوں کو بدنام کرنے کی منظم کوشش ہیں۔
یاد رہے، یتنال اس سے قبل بھی اپنے فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز بیانات کے لیے بدنام رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ “جو شخص مسلم لڑکی سے شادی کرے، اُسے پانچ لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔” یہ بیان اُس وقت جمہوری اقدار اور خواتین کی حرمت کے خلاف اشتعال انگیزی کے طور پر ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ اب ایک بار پھر انہوں نے اسی روش کو دہرا کر سانحہ دہلی جیسے حساس معاملے کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق اور احتیاط
سیکیورٹی اداروں نے دہلی، فریدآباد، جموں و کشمیر، ہریانہ اور یوپی میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ لیکن مرکزی سطح پر یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ وقت افواہوں یا الزام تراشی کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے۔
امن و یکجہتی کی اپیل
دہلی کے ممتاز سماجی کارکنوں اور امن کمیٹیوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی بے بنیاد باتوں پر یقین نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو سیاسی نفرت یا مذہبی امتیاز کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
سیکیورٹی ماہرین اور متعدد مبصرین کا کہنا ہے کہ حساس واقعات کے دوران توڑ مروڑ یا جلد بازی میں نتیجہ اخذ کرنا تحقیقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سیاسی اور سماجی حلقوں نے بھی زور دیا ہے کہ حقائق سامنے آنے تک فرضی دعوے نہ کیے جائیں۔
