مدرسوں کی سیلنگ اور آئینی تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ
غالب شمس
مدرسوں کی تالہ بندی کا حالیہ سلسلہ اتراکھنڈ میں ایک ایسی بحث چھیڑ گیا ہے جو محض تعلیمی اداروں تک محدود نہیں رہتی۔ بظاہر یہ کارروائی وزیراعلیٰ کے حکم پر غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی جانچ کے لیے کی گئی تھی، جس کے تحت سات سو سے زیادہ اداروں کی تفتیش اور دو سو سے زائد کی سیلنگ ہوئی۔ مگر جب اس کی تفصیلات حقِ اطلاعات کے ذریعے منظرِ عام پر آئیں تو انکشاف ہوا کہ اس پورے عمل کے پیچھے کوئی واضح قانون یا ضابطہ موجود ہی نہیں تھا۔ یوں ایک انتظامی حکم نے نہ صرف سیکڑوں اداروں کو متاثر کیا بلکہ جمہوری شفافیت اور آئینی تقاضوں پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے۔

سماجی کارکن اور وکیل ندیم الدین ایڈوکیٹ نے مدرسہ بورڈ، اقلیتی فلاحی محکمہ اور ضلع انتظامیہ سے اس کارروائی کے ضوابط اور قواعد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ مختلف محکموں نے کچھ خطوط تو فراہم کیے، لیکن کسی نے بھی قانونی قاعدہ یا ضابطہ پیش نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اپیل کے دوران اقلیتی فلاحی ڈائریکٹوریٹ کے نائب ڈائریکٹر ہیرا سنگھ بسیرہ کے سامنے ضلعی افسران نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس مدرسوں کی جانچ اور سیلنگ کے لیے کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں ہے۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق 19 دسمبر 2024 کو وزیراعلیٰ کی جانب سے پرنسپل سکریٹری کو ایک خط ارسال کیا گیا تھا، جس میں غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی جانچ کر کے رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ اس کے بعد 23 دسمبر کو اقلیتی فلاحی محکمہ نے تمام ضلع مجسٹریٹوں کو ہدایت دی کہ وہ اعلیٰ سطحی کمیٹیاں بنا کر دس دن کے اندر رپورٹ پیش کریں۔ انہی ہدایات کی بنیاد پر ضلع سطح پر جانچ اور سیلنگ کی کارروائیاں انجام دی گئیں۔
رپورٹس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ مجموعی طور پر آٹھ اضلاع میں کل 680 مدرسوں کی جانچ ہوئی، جن میں 410 رجسٹرڈ اور 270 غیر رجسٹرڈ تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کسی بھی مدرسے میں مشتبہ یا غیر قانونی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ضلع وار تفصیلات کے مطابق دیہرادون کے 93 مدرسوں میں 36 رجسٹرڈ اور 57 غیر رجسٹرڈ نکلے۔ اودھم سنگھ نگر کے 237 مدرسوں میں 112 رجسٹرڈ اور 125 غیر رجسٹرڈ پائے گئے۔ ہریدوار کے 328 مدرسوں میں 259 رجسٹرڈ اور 69 غیر رجسٹرڈ سامنے آئے۔ پٹھوراگڑھ کے تین مدرسوں میں ایک رجسٹرڈ اور دو غیر رجسٹرڈ تھے، الموڑہ کے 16 مدرسے سب غیر رجسٹرڈ نکلے، جبکہ ٹہری کے تین میں دو رجسٹرڈ اور ایک غیر رجسٹرڈ پایا گیا۔ رودر پریاگ اور چمولی اضلاع میں کوئی مدرسہ چلتا ہوا نہیں ملا۔
اس پوری کارروائی کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ سیکڑوں مدرسے کھنگالے گئے مگر نہ کوئی ادارہ مشکوک پایا گیا اور نہ غیر قانونی سرگرمی کا کوئی ثبوت ملا۔ سوال یہ ہے کہ جب قانون ہی موجود نہ تھا تو تالہ بندی کی بنیاد کیا تھی؟ جمہوری نظام کا تقاضا ہے کہ ہر اقدام قانون کے مطابق ہو، اور یہی وہ کمی ہے جس نے اس کارروائی کو آئینی اصولوں کے خلاف اور اقلیتی برادری کے لیے تشویش کا باعث بنا دیا ہے۔
اتراکھنڈ میں مدارس کی یہ تالہ بندی ایک عام انتظامی کارروائی سے کہیں بڑھ کر ہے، اس نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ جب حکومت واضح قانونی بنیاد کے بغیر فیصلے کرتی ہے تو یہ عمل صرف اداروں کو نہیں، پورے نظام کو کمزور کرتا ہے۔ بھارت جیسے کثیرالثقافتی ملک میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے خلاف بلا جواز اقدامات نہ صرف آئینی حقوق کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماجی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنے اختیارات کو آئین اور قانون کے دائرے میں استعمال کرے۔ جمہوریت اسی وقت مضبوط رہ سکتی ہے جب ریاستی طاقت آئین اور قانون کے دائرے میں استعمال ہو، کیونکہ اس کی اصل بنیاد قانون کی حکمرانی ہی ہے۔

1 thought on “مدرسوں کی سیلنگ اور آئینی تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ”