مدرسہ سے میڈیا تک : دیوبند کی روایتِ علم و آگہی
جان بٹ
امیر خان متقی کے دیوبند کے دورے پر جو شور برپا ہوا، اس میں میرے لیے اصل دلکشی ایک چھوٹی سی بات میں چھپی تھی — بظاہر معمولی، مگر معنی خیز۔
ہفتے کے روز ہونے والی اس تقریب کی ویڈیو رپورٹ میں نے انڈیپنڈنٹ اُردو کی ویب سائٹ پر دیکھی۔ رپورٹنگ سہیل اختر قاسمی کی تھی ۔جو بظاہر دیوبند ہی سے اس ادارے کے نمائندہ ہیں۔ قاسمی نام دیکھ کر میں چونک گیا؛ اس سے ظاہر تھا کہ موصوف دارالعلوم دیوبند کے فارغ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان وزیرِ خارجہ کو بھی اس موقع پر دارالعلوم کی اعزازی سند عطا ہوئی، جس کے بعد انہیں اپنے نام کے ساتھ “قاسمی” لگانے کا حق حاصل ہوا یعنی اب وہ امیر خان متقی قاسمی کہلائیں گے۔

لیکن میری توجہ دراصل ایک دوسرے “قاسمی” پر مرکوز رہی سہیل اختر قاسمی پر۔ ان کی رپورٹنگ نے مجھے پندرہ برس پیچھے، 2009 کے جلال آباد میں لے گئی۔ مشرقی افغانستان کا وہ شہر جہاں میں نے علمائے دین کی ایک مجلس کا اہتمام کیا تھا۔ اس مجلس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے مدارس میں میڈیا مراکز قائم کرنے کی مہم کو فروغ دیا جائے۔
اس دن ہال میں صحافیوں کا جمِ غفیر تھا، اور ان سب کا ایک ہی سوال تھا: "مدرسہ اور میڈیا میں کیا ربط ہو سکتا ہے؟”
ان کے نزدیک دونوں جہان ایک دوسرے سے بالکل بیگانہ تھے۔ میں مسکرایا اور کہا: "میں خود وہ ربط ہوں۔” میں بھی دارالعلوم دیوبند کا فارغ ہوں، اور میں نے صحافت مدرسے ہی میں سیکھی۔ دیوبند سے فراغت کے بعد میں نے دہلی میں چھ برس مولانا وحیدالدین خان کی صحبت میں گزارے۔ وہ بھی مدرسے کے تربیت یافتہ تھے۔ میں نے ان کے رسالے الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن شائع کیا، جس کا مقصد تھا: اسلامی فکر، زمانے کی زبان میں۔ پھر میں روایتی صحافت کی طرف مائل ہوا ۔ پہلے فرنٹیئر پوسٹ (پاکستان) میں لکھا، پھر نشریاتی صحافت اور ریڈیو ڈراموں کی طرف بڑھا۔ افغانستان میں بی بی سی کے ساتھ میرا سفر “عصرِ حاضر کی کہانی گوئی” کے طور پر جاری رہا۔ یہ سب کچھ کم از کم جس سطح پر میں نے کیا مدرسے کی تربیت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ سب ہندوستان کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی برکت تھی۔
ہندوستان میں مسجد و مدرسہ سے نکل کر جدید معاشرت میں داخل ہونے کے جو راستے مجھے ملے، وہی مواقع دوسرے ہندوستانی فارغین کو بھی حاصل ہیں، جیسے سہیل اختر قاسمی کو۔ ایسے مواقع میں نے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیکھے۔ یہ سب آزادی کے ابتدائی برسوں میں وزارتِ تعلیم کے ان روشن دماغ اہلکاروں کا فیض تھا — خصوصاً ہماؤن کبیر کا، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے زیرِ سایہ کام کرتے تھے۔
ہماؤن کبیر نے “پالیسیِ مساواتِ تعلیم” (Policy of Equivalence) کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت مخصوص مدارس (ابتدا میں پچیس، اب شاید اس سے زیادہ) کے فارغین براہِ راست یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر فارغین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا عربی و اسلامیات کے شعبوں کا رخ کیا۔ وہیں سے کچھ نے دیگر شعبوں کی راہ پکڑی ۔ اور آج وہ ملک کے مختلف علمی اداروں میں موجود ہیں۔ میں نے جامعہ ملیہ میں تو بے شمار مدرسہ فارغین دیکھے، مگر دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جیسے سیکولر اداروں میں بھی ان کی واضح موجودگی محسوس کی۔ تاہم، مدرسے سے میڈیا کی دنیا میں آنا، جیسا کہ سہیل اختر قاسمی نے کیا، کسی اضافی نصاب یا علمی تبدیلی کا محتاج نہیں۔
میں ان کی ذاتی داستان پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر چونکہ وہ راہ میری اپنی راہ سے مشابہ ہے، اس لیے اپنی بات کہتا ہوں۔
میری صحافتی زندگی — جو دارالعلوم دیوبند سے 1983 میں فراغت کے بعد شروع ہوئی — دراصل خود نصابِ دیوبند ہی کی ایک توسیع تھی۔ مجھے کسی “نئے مضمون” کی طرف رخ موڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
امیر خان متقی کے دورے کا سب سے نمایاں پہلو وہ اعزازی سند تھی جو انہیں حدیث کی تدریس کے حق کے طور پر عطا کی گئی۔ دیوبند کے نصاب کی آخری منزل ہی حدیث ہے۔ آٹھ سالہ نصاب کے اختتام پر طلبہ ایک سال مشکاة المصابیح پڑھتے ہیں، پھر آخری سال میں صحاح ستہ ۔ یعنی وہ چھ معتبر مجموعے جو رسولِ اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات پر مشتمل ہیں۔
ساتھ ہی وہ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ محدثین نے ان روایات کی سچائی کو جانچنے کے لیے کیا معیار مقرر کیا۔
یہیں سے وہ رشتہ بنتا ہے جو حدیث کی تعلیم کو صحافت سے جوڑ دیتا ہے۔ میں نے حدیث کو “رسولِ اکرم ﷺ کی زندگی کی رپورٹیں” کہا — اور یہ تعبیر سوچ سمجھ کر چُنی۔
درحقیقت “حدیث” کا مفہوم ہی “نئی بات” یا “خبر” ہے۔
محدثین نے جو نظام ترتیب دیا ۔ جس کے ذریعے وہ ہر خبر کا ماخذ، راوی اور صداقت پرکھتے تھے ۔ وہی جدید صحافت کا ابتدائی خاکہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مدرسہ فارغین کے لیے پیشہ ورانہ راستے کھلے رہیں ۔ علمی بھی اور عملی بھی۔ ہنوستان میں یہ راستے موجود ہیں۔ اگر افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات مضبوط ہوں، تو ایسے امکانات وہاں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس کے بے شمار فوائد ہیں: مدرسہ فارغین باعزت روزگار حاصل کریں گے، مختلف شعبوں میں اپنے علم و اخلاق کا رنگ بھریں گے، اور ہر میدان میں دیانت، سچائی اور خدمت کا نیا معیار قائم کریں گے۔ جنوبی ایشیا میں دینی تعلیم آج بھی نوجوانوں کے لیے ایک پُرکشش راستہ ہے، مگر مسجد و مدرسہ سب کو سمیٹ نہیں سکتے۔ اگر انہیں متنوع پیشوں کے مواقع ملیں — جیسا کہ ہندوستان میں ہے۔ تو وہ معاشرے کے ہر طبقے میں روشنی پھیلائیں گے، اور اپنی زندگیوں میں وقار و استحکام پیدا کریں گے۔
جان محمد بٹ دارالعلوم دیوبند سے 1983 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی پوری زندگی صحافت، نشریات اور ابلاغِ عامہ کے میدان میں سرگرم رہے، خاص طور پر افغانستان میں۔
نوٹیہ مضمون معروف انگریزی جریدے دی ملی گزٹ میں شائع ہونے والے جان بٹ کے ایک اہم مقالے کا مستند اردو ترجمہ ہے۔ اس کی فکری اہمیت اور تاریخی معنویت کے پیش نظر روایت کی ادارتی ٹیم نے اسے قارئین کے لیے پیش کیا ہے، تاکہ دیوبند کی علمی روایت اور اس کے عالمی اثرات کو سمجھا جا سکے۔

امیر خان متقی کا دورہ ہندوستان اور ان سے متعلق معلومات افزا رپورٹنگ بہت خوب ہیں۔
Very good