مساجد و مدارس میں سی سی ٹی وی کا مطالبہ
روایت نیوز ڈیسک
ہندوستان میں مدارس و مساجد پر سوال اٹھانے اور شبہات پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی تناظر میں بی جے پی کے میرٹھ سے رکنِ پارلیمنٹ ارون گوئل نے لوک سبھا میں ایک ایسا بیان دیا جس نے سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث اور تشویش دونوں کو جنم دیا۔ گوئل نے قومی سلامتی کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک کی تمام مساجد اور مدارس میں سی سی ٹی وی کیمرے لازمی نصب کروائے اور اس سلسلے میں ایک قومی سلامتی پالیسی بنائے۔
گوئل کا بیان ریکارڈ کے لیے مکمل یوں ہے: “ملک بھر میں مندروں، گرجا گھروں، گردواروں، اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، بازاروں اور زیادہ تر عوامی مقامات پر کیمرے نصب ہیں۔ یہ نظام سیکورٹی، شفافیت اور جرائم کی روک تھام میں فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ لیکن مساجد اور مدارس میں اب تک یہ نظام نافذ نہیں ہے، حالانکہ یہ بھی بڑے عوامی اور سماجی مقامات ہیں جہاں سیکورٹی اتنی ہی اہم ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کے مکہ — جو مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ہے ـ وہاں بھی سیکورٹی کے تحت مساجد اور مدارس میں کیمرے نصب ہیں۔ اگر مکہ میں یہ نظام رائج ہو سکتا ہے تو پھر بھارت میں اسی معیار کی سیکورٹی نافذ کرنے میں تردد کیوں؟”
“سیکورٹی نہ مذہبی ہوتی ہے، نہ امتیازی۔ سیکورٹی ہمیشہ ملک اور انسانوں کے مفاد میں ہوتی ہے۔”
بیان اپنی ساخت میں اگرچہ سلامتی کا حوالہ دیتا ہے، مگر نشانہ صاف طور پر مدارس و مساجد کو بنایا گیا ہے، جس سے شبہات کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اعتراض یہ نہیں کہ سیکورٹی بہتر کیوں ہو ـ اعتراض اس بات پر ہے کہ دھارے کے دیگر اداروں کا ذکر رسمی ہے، جبکہ فوکس صرف مسلم مذہبی تعلیمی اداروں پر رکھا گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے ماہرین متنازع اور تشویش ناک قرار دے رہے ہیں۔
مدارس صرف مذہبی تعلیم کا مرکز نہیں رہے، انہوں نے آزادی کے لیے لڑنے والے نوجوان تیار کیے، ملک کی فکری بنیادوں کو مضبوط کیا، صحافی، اساتذہ، قاضی، مفکر اور خدمت گزار پیدا کیے۔ جنگِ آزادی سے لے کر سماجی تحریکوں تک مدارس نے اس قوم کو وہ دماغ دیے جنہوں نے ہندوستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ایسے تاریخی اداروں کو سی سی ٹی وی اور نگرانی کے پردے میں مشکوک ٹھہرانا کیا انصاف ہے؟ کیا اسے قومی سلامتی کہا جائے یا ذہنی مشقِ بدگمانی؟
اس وقت سوال یہ نہیں کہ کیمرے لگیں یا نہیں ـ سوال یہ ہے کہ کیا ہم تعلیمی اداروں کو مشکوک کہہ کر ان کی حرمت اور کردار کو مجروح کر سکتے ہیں؟ کیا سیکورٹی کا لفظ استعمال کر کے ایک پوری روایت اور کمیونٹی کی پہچان کو شک کے کٹہرے میں کھڑا کرنا قومی فائدہ دے گا؟
یہ مطالبہ ایک سمت رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے ـ جہاں مذہبی شناخت کو خطرے کے تصور کے ساتھ باندھا جا رہا ہے۔ قومی سلامتی اہم ہے، مگر شک کی بنیاد پر سکیورٹی نہیں، اعتماد کی بنیاد پر پالیسی بنتی ہے۔ مدارس پر تنقید کی جائے تو تحقیق کے ساتھ، اور نگرانی ہو تو قانون کی برابری کے ساتھ، نہ کہ ایک کمیونٹی کو بطور “تشویش” پیش کر کے۔
