سنت کبیر نگر میں لڑکیوں کا مدرسہ کلیۃ البناتِ الرضویہ سیل، مسلم آبادی میں تشویش
روایت نیوز ڈیسک | لکھنؤ | 4 نومبر 2025
اترپردیش کے ضلع سنت کبیر نگر میں انتظامیہ نے ایک مسلم عالمِ دین، مولانا شمس الہدیٰ خان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے بیرونی فنڈنگ کے ذریعے بعض مشتبہ سرگرمیوں کو فروغ دیا اور غیر قانونی مالی لین دین میں ملوث رہے۔ کارروائی اقلیتی بہبود افسر پروین کمار مشرا کی شکایت پر اتوار کی شب عمل میں آئی۔ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی دستہ (ATS) وارانسی یونٹ کی رپورٹ کے بعد درج کیا گیا، جس میں بیرونی چندوں میں بے ضابطگیوں اور مذہبی پلیٹ فارم کو نظریاتی اثر کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کے شواہد درج ہیں۔
ATS کی 25 مارچ 2025 کی رپورٹ کے مطابق، مولانا شمس الہدیٰ خان 2007 سے 2017 تک برطانیہ میں مقیم رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انہیں نہ اترپردیش مدرسہ بورڈ سے اجازت حاصل تھی، نہ حکومتِ ہند سے۔ مزید بتایا گیا کہ انہوں نے 2013 میں برطانوی شہریت حاصل کی اور اس کے بعد مذہبی اجتماعات، لیکچرز اور آن لائن دروس کا سلسلہ شروع کیا۔ سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاکستان اور جموں و کشمیر میں بعض افراد اور تنظیموں سے روابط تھے، جن کے ذریعے وہ ہندوستان میں نظریاتی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم، رپورٹ میں ان روابط کی تفصیلات یا نوعیت واضح نہیں کی گئی۔
مولانا شمس الہدیٰ خان 2017 میں واپس ہندوستان آئے اور خلیل آباد میں کلیۃ البنات الرضویہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ ادارہ کلیۃ البنات الرضویہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت چلتا تھا۔ بعد میں انہوں نے رضا فاؤنڈیشن کے نام سے ایک اور غیر سرکاری تنظیم بھی قائم کی۔ ATS کے مطابق، ان دونوں اداروں کے ذریعے تعلیم و فلاح کے نام پر بیرونی فنڈ جمع کیے گئے، مگر کچھ رقم مبینہ طور پر ذاتی کمیشن اور غیر مجاز لین دین میں منتقل کی گئی۔ تفتیش میں کئی غیر ملکی کھاتوں سے مشکوک رقوم کا سراغ ملا، جو مختلف بینک اکاؤنٹس کے ذریعے سنت کبیر نگر، اعظم گڑھ اور قریبی اضلاع کے مدارس تک پہنچیں۔ ان اداروں میں دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم، مبارک پور بھی شامل ہے، جس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انتظامیہ کے مطابق، مولانا شمس الہدیٰ خان کی سرگرمیاں صرف مذہبی تبلیغ تک محدود نہیں رہیں بلکہ نظریاتی نیٹ ورکنگ تک پھیل گئیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو مذہبی بنیاد پر متاثر کرنے کی کوشش کی، جب کہ ان کے بیرونی روابط اور غیر ملکی دوروں نے شبہات کو مزید گہرا کر دیا۔ ATS کی رپورٹ، اقلیتی بہبود محکمے اور اترپردیش مدرسہ بورڈ کی سفارشات کی بنیاد پر سنت کبیر نگر انتظامیہ نے فوری قانونی کارروائی کی ہدایت دی۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ سندیپ مینا کے مطابق، مولانا شمس الہدیٰ خان کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہیتا (BNS) کی دفعہ 318(4) کے تحت دھوکہ دہی اور غیر ملکی زرمبادلہ نظم ایکٹ (FEMA) 1999 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں مولانا کے مالی نیٹ ورک، بیرونی روابط اور ممکنہ مالی بے ضابطگیوں کی جامع جانچ شامل ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) سے بھی تفتیش کی سفارش کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے بعد مدرسہ کلیۃ البنات الرضویہ سمیت دونوں غیر سرکاری تنظیموں — کلیۃ البنات الرضویہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اور رضا فاؤنڈیشن — کی رجسٹریشن اور منظوری عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ مزید کارروائی ATS کی مالی و ڈیجیٹل آڈٹ رپورٹ کی بنیاد پر ہوگی، جس میں بیرونی فنڈز کے استعمال اور نظریاتی سرگرمیوں کے ممکنہ پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ریاست میں مدارس اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں کئی مدارس کی فنڈنگ اور رجسٹریشن کی جانچ شروع کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی یا تعلیمی اداروں کے تئیں الزامات کے بیان میں ایسے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں جو معاشرتی حساسیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تفتیشی ادارے اپنی کارروائی قانونی حدود میں رکھیں اور میڈیا بیانیے میں احتیاط برتی جائے تاکہ کسی مخصوص طبقے یا تعلیمی نظام کے خلاف منفی تاثر پیدا نہ ہو۔
تمام الزامات اس وقت زیرِ تفتیش ہیں۔ حتمی حقائق سرکاری تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔
