نینی تال ہائی کورٹ کا حکومتِ اتراکھنڈ کو نوٹس
مدارس کی بندش کے خلاف جمیعۃ علماء ہند کی عرضی پر کارروائی
نئی دہلی، 26 اگست (روایت ڈاٹ کام)
نینی تال ہائی کورٹ نے اتراکھنڈ میں مدارس کی مبینہ غیر آئینی بندش کے معاملے پر ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس گوہان ناتھن نریندر اور جسٹس سبھاش اُپادھیا پر مشتمل بینچ نے یہ نوٹس جمیعۃ علماء ہند کی عرضی پر سماعت کے بعد جاری کیا اور حکومت سے تحریری جواب طلب کیا۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ مدرسہ ایکٹ 2016 مدارس کی رجسٹریشن کو لازمی نہیں قرار دیتا اور نہ ہی غیر رجسٹرڈ مدارس کو غیر قانونی مانا گیا ہے۔ مزید یہ کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2012 کے تحت مدارس، پاٹھ شالاؤں اور اسی نوعیت کے اداروں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ جمیعۃ نے مؤقف اختیار کیا کہ ریاست کی یہ کارروائیاں آئین کے آرٹیکلز 14، 15، 19، 25، 26 اور 30 کی خلاف ورزی ہیں۔
21 اکتوبر 2024 کو سپریم کورٹ نے مولانا ارشد مدنی کی عرضی پر مدارس کے خلاف کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کیا تھا اور ریاستی حکومتوں کے تمام نوٹسز معطل کر دیے تھے۔
اس کے باوجود اترپردیش، تریپورہ اور اتراکھنڈ میں مدارس کی بندش کا سلسلہ جاری رہا، جس پر سپریم کورٹ نے مئی 2025 میں جمیعۃ کو ہدایت دی کہ وہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔
سنجے ہیگڑے نے عدالت میں کہا کہ ریاست میں مدارس کو بغیر پیشگی اطلاع بند کیا جا رہا ہے، حالاں کہ آئین اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیتا ہے۔ حکومت کے وکیل نے اعتراض کیا کہ جمیعۃ براہِ راست متاثرہ فریق نہیں ہے، مگر ہیگڑے نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مدارس کا نہیں بلکہ حکومت کی من مانی کا ہے، جس کے خلاف کوئی بھی شہری عدالت جا سکتا ہے۔
جمیعۃ کا ردعمل
صدر جمیعۃ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس کو نشانہ بنانا "منصوبہ بند سازش” ہے، جو مسلمانوں کو آئینی اختیارات اور مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمیعۃ اس معاملے میں قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔
سیاسی تناظر
خیال رہے کہ حال ہی میں بی جے پی حکومت نے اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کو تحلیل کر کے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے، جس کے تحت تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے ریاستی ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت رجسٹریشن لازمی کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام کو ناقدین مدارس پر مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
