وقف ایکٹ 2025، سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ، وقف املاک اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
افروز عالم ساحل ایک صحافی اور مصنف ہیں، جو اقلیتوں، وقف جائیدادوں اور سماجی انصاف کے موضوعات پر اپنی تحقیقی رپورٹنگ اور تحریروں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ آزاد آن لائن پلیٹ فارم بیونڈ ہیڈلائنس کے بانی و مدیر ہیں اور وقف کے موضوع پر متعدد تحقیقی مضامین اور رپورٹس لکھ چکے ہیں۔ اس وقت وہ ہندوستان میں وقف کی موجودہ صورت حال پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں۔

روایت ڈاٹ کام کے لئے غالب شمس نے ان سے وقف اور اس سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات:
وقف ایکٹ اور اس پر عدالت کے حالیہ عبوری فیصلے پر آپ کا مؤقف کیا ہے؟
اگرمجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس عبوری فیصلے کو اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ بظاہر کچھ دفعات کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، لیکن متعدد دیگر دفعات کے حق میں بھی بات کی گئی ہے، جو غیر منصفانہ لگتی ہیں ۔ گویا ان کے جواز کو تسلیم کیا گیا ہو۔ ایسے میں یہ فیصلہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر کامیاب نہیں رہا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو کم کرنے میں بھی ناکام رہا۔ یہ رویہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اقلیتی برادری کو ریاستی طاقت کے بے جا استعمال پر شدید تشویش ہے۔
ہاں، ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دفعہ 3C کے تحت کلکٹر کو دیے گئے غیر معمولی اختیارات پر روک لگی ہے، لیکن ساتھ ہی نئی ابہام بھی پیدا کر دی۔ عدالت نے یہ برقرار رکھا کہ کلکٹر کے درجے سے اوپر کا افسر یہ انکوائری کر سکتا ہے کہ کیا وقف کی زمین سرکاری ہے یا نہیں۔ لیکن اسی وقت عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کوئی ریونیو افسر زمین کے ملکیتی حق کا فیصلہ نہیں کر سکتا — یہ کام صرف عدالتی یا نیم عدالتی ادارے جیسے کہ وقف ٹریبونل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ منطق الجھاؤ میں ڈالتی ہے: اگر افسر ملکیت کا فیصلہ نہیں کر سکتا تو پھر انکوائری کو باقی کیوں رکھا گیا؟ کیا افسر کی رپورٹ محض ایک اشارہ بن کر ٹریبونل کے فیصلے سے پہلے ہی پلڑا جھکا دیتی ہے؟ اب شاید قانون کے ماہرین ہی ان سوالوں کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
عدالت نے احتیاط کیوں برتی؟
اب یہ کہنا تو میرے لئے بہت مشکل ہے۔ لیکن جب میں سپریم کورٹ کے ججمنٹ کو پڑھ رہا تھا تو پایا کہ عدالت نے بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ اس کے یہ مشاہدات محض عبوری نوعیت کے ہیں اور حتمی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ بظاہر یہ عدالتی احتیاط اپنی جگہ درست ہے، لیکن لیکن بار بار یہ وضاحت دینا بھی ایک تاثر پیدا کرتا ہے—عام لوگوں میں بھی اور قانون جاننے والوں میں بھی— کہ شاید عدالت کسی سیاسی دباؤ میں ہے یا پھرمعاملے کی حساسیت کے سبب وہ آئینی اور قانونی نکات پر کھل کر رائے دینے سے گریز کر رہی ہے۔ یہ رویہ آزاد عدلیہ کے اصول سے میل نہیں کھاتا، خاص طور پر اس وقت جب بنیادی حقوق اور اقلیتی مفادات داؤ پر لگے ہوں۔ فیصلے کا یہ پہلو ہندوستانی مسلمانوں میں مزید بےچینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ ملک کے مسلمان سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر عدلیہ بھی واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار نہ کرے، تو انصاف کی امید کہاں سے رکھی جائے؟
’’وقف بائی یوزر‘‘ پر عدالت نے کیا کہا؟
جب وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو پہلی بار سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بینچ کو یقین دلایا تھا کہ ’وقف بائی یوزر‘ جائیدادوں کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اُس وقت ان کی یہ یقین دہانی ملک کے مسلمانوں کے لیے اپنی تاریخی ’وقف بائی یوزر‘ جائیدادوں کے تحفظ کی ایک مضبوط ضمانت محسوس ہوئی۔ لیکن حالیہ فیصلے میں عدالت نے اس پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا اور اس سے بھی مایوس کن بات یہ ہے کہ کورٹ میں اس معاملے کی جو بحث ہوئی، جو ججمنٹ کی کاپی میں بھی موجود ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ “وقف بائی یوزر” کی بنیاد پر سرکاری زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ ہوا ہے اور اسے روکنے کے لئے یہ شق ختم کی جائے تو اسے من مانی نہیں کہا جا سکتا۔ یعنی عدالت نے اس خاتمے پر حکم امتناعی دینے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ یہ اقدام سرکاری زمین پر قبضے روکنے کے لیے ہے۔ غورطلب رہے کہ تقریباً 50 فیصد وقف جائیدادیں "وقف بائی یوزر” کے تحت آتی ہیں۔بھلے ہی ان کی دستاویزات موجود نہ ہوں، لیکن ریونیو ریکارڈ اور تاریخی شواہد ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ جب کوئی مسجد یا قبرستان صدیوں سے موجود ہے، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی دستاویز نہیں ہے؟ اگر وقف نامہ محفوظ نہیں رہا تو بھی ریونیو ریکارڈ اس کی شہادت دیتے ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں بڑے قبرستان اور عیدگاہیں ہیں، تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مقامی زمینداروں نے دیے۔ صرف اس لیے کہ وقف نامہ نہیں ہے، انہیں سرکاری زمین مان لینا غلط ہے۔لیکن افسوس ! وقف ترمیمی ایکٹ کے مطابق اگر کلکٹر رپورٹ دے کہ کوئی زمین متنازع ہے یا سرکاری ہے، تو وقف رجسٹر نہیں ہوگا۔ حالانکہ حکومت نے کہا ہے کہ یہ تبدیلی”Prospective“ ہے، یعنی پرانے رجسٹرڈ اوقاف محفوظ رہیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اوقاف رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں اور وہ سب خطرے میں ہوں گے۔ خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جہاں قبرستان زیادہ تر”وقف بائی یوزر“ تھے، وہاں زمین کے جھگڑے اور زیادہ بڑھیں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وقف بائی یوزر کے خاتمے سے کیا حکومت واقعی قانونی اصلاح کر رہی ہے یا مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور وراثتی املاک کو غیر محفوظ بنا رہی ہے؟حالانکہ ابھی کسی بھی نتیجے پر پہونچنا تھوڑی جلدبازی ہوگی، کیونکہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے سے اس پر مزید بحث ضرور ہوگی، تب عدالت سے اس متعلق بہتر کی امید کی جاسکتی ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ کے مطابق اگر کلکٹر رپورٹ دے کہ کوئی زمین متنازع ہے یا سرکاری ہے، تو وقف رجسٹر نہیں ہوگا۔ حالانکہ حکومت نے کہا ہے کہ یہ تبدیلی”Prospective“ ہے، یعنی پرانے رجسٹرڈ اوقاف محفوظ رہیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اوقاف رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں اور وہ سب خطرے میں ہوں گے۔ خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جہاں قبرستان زیادہ تر”وقف بائی یوزر“ تھے، وہاں زمین کے جھگڑے اور زیادہ بڑھیں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وقف بائی یوزر کے خاتمے سے کیا حکومت واقعی قانونی اصلاح کر رہی ہے یا مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور وراثتی املاک کو غیر محفوظ بنا رہی ہے؟
عدالت نے دفعہ 23 کے بارے میں کیا ہدایت دی؟
عدالت نے دفعہ 23 کو معطل تو نہیں کیا ہے، مگر ہدایت دی ہےکہ ”ممکنہ حد تک وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) ،جو بورڈ کا سیکریٹری بھی ہوتا ہے ، مسلمان ہونا چاہیے۔“ بظاہر یہ نرم سا جملہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ غیر مسلم افسر کو بھی وقف بورڈ کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے خلاف ہوگا بلکہ اقلیتی ادارے کی نمائندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
مذہبی شناخت سے متعلق شق کہ کوئی شخص کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو ، اس پر عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے ”ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ 3 کی شق (r) کو فی الحال معطل تو کیا ہے، لیکن اسے کالعدم قرار دینے سے گریز کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب تک ریاستی حکومت کوئی ضابطہ نہیں بنا لیتی جس سے یہ طے ہو کہ کوئی شخص واقعی پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں، تب تک یہ شق معطل رہے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی شرط دراصل مذہبی شناخت کی ریاستی نگرانی کو جنم دیتی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 25 یعنی مذہبی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔ کیا کوئی ریاست یہ طے کرے گی کہ ایک شخص کتنا ’مسلمان ‘ہے؟ یہ خود ایک خطرناک نظریاتی سوال ہے جو مذہب میں ریاستی مداخلت کے دروازے کھولتا ہے۔
نمائندگی کے بارے میں کیا کہا گیا؟ اور آپ کیا سوچتے ہیں؟
بظاہر دیکھنے میں شاید یہ فیصلہ اچھا لگے کہ کچھ ہندو بھائی وقف سے جڑیں اور چیزوں کو قریب سے سمجھیں۔ اگر واقعی اچھے لوگ آ جائیں تو وہ ایک طرح کا چیک اینڈ بیلنس بھی قائم کر سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ مرکزی وقف کونسل (22 ارکان) میں زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم اور ریاستی وقف بورڈ (11 ارکان) میں زیادہ سے زیادہ تین غیر مسلم ارکان ہوں گے۔ بظاہر دیکھنے میں شاید کسی کے لئے یہ فیصلہ خوش آئند ہو سکتا ہے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسی بہانے ہمارے کچھ ہندو بھائی وقف سے جڑی چیزوں کو جانیں اور سمجھیں گے، اچھے لوگ اگر وقف بورڈ میں ہوں گے تو وہ بورڈ کے دیگر ممبران کو چیک بیلینس رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ قدم وقف بورڈ کو برباد کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ بلکہ سچ یہی ہے کہ آج کے حالات میں اچھے لوگوں کے آنے کے امکانات نہ کے برابر ہیں۔ وقف بورڈ میں زیادہ تر وہی لوگ آتے ہیں جنہیں حکومت چاہتی ہے، اور جب حکومت کی نیت میں کھوٹ ہو تو وہاں خیر کی امید مشکل ہے۔
بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا اقلیتی مذہبی اداروں میں غیر مسلموں کی شمولیت ان اداروں کی خودمختاری کے خلاف نہیں؟ کیا اکثریتی مذہب کے ماننے والے (خاص طور پر ہندتوا آئیڈیولوجی سے جڑا کوئی شخص) کسی اقلیتی مذہبی ادارے میں فیصلہ سازی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یہ نہ صرف اقلیتوں کے انتظامی حقوق (Article 26) کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے بلکہ مذہبی آزادی کے اصول کو بھی مجروح کرتی ہے۔ اس عبوری حکم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی اس شق کو آئینی تسلیم کر لیا ہے، جبکہ آئین کا آرٹیکل 26 مذہبی برادریوں کو اپنے ادارے خود چلانے کا حق دیتا ہے۔ کوئی بھی قانون جو اس حق سے محروم کرے، غیر آئینی ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس غیر آئینی شق کو مسترد کرنے کے بجائے، صرف اس کی حد مقرر کی۔ یہ خطرہ اس لئے بھی بڑھ جاتا ہے کہ جیسے دودھ میں ایک بوند زہر کی مل جائے تو سارا دودھ جان لیوا ہو جاتا ہے، ویسے ہی ایک غلط نمائندہ پورے بورڈ کو بے اثر کر سکتا ہے۔
کیا سیاسی کنٹرول نے وقف کو نقصان پہنچایا؟
بالکل، حقیقت یہی ہے۔ جس ریاست میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، وہاں وقف بورڈ پر بھی اسی پارٹی یا آئیڈیولوجی کے لوگوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ نومینیٹ ممبران سے لے کر چیئرمین تک سبھی کا تعلق وہیں سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقف کی سب سے زیادہ بربادی وقف بورڈ کے اندر سے ہوئی ہے۔
بالکل، سچائی یہی ہے کہ جس ریاست میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، اسی پارٹی یا آئیڈیولوجی کے لوگوں کا وقف بورڈ میں دبدبہ ہوتا ہے، نومینیٹ ممبران سے لے کر چیئرمین تک سبھی کا تعلق وہیں سے ہوتا ہے۔ اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے، اور یہی چیز وقف کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ وقف بورڈ نے ہی سب سے زیادہ وقف کو نقصان پہونچایا ہے۔ ان کے ساتھ ملک کے مسلمان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی وقف کے تحفظ کی خاطر آواز نہیں اٹھائی۔
آپ دیکھئے، قبرستان جیسا بنیادی مسئلہ بھی ہمارے لوگ نظرانداز کرتے رہے۔ نو تو بطور صحافی ہمیشہ وقف سے جڑے حقائق کو ان کے سامنے رکھتا رہا ہوں کہ کس طرح سے ملک سے قبرستان غائب ہورہے ہیں، حد تو تب ہوگئی کہ جس گڑگاؤں میں مسلمان سڑک پر نماز پڑھنے کے لئے مارے پیٹے جارہے تھے، اسی گڑگاؤں میں مسجد تک کو ہریانہ وقف بورڈ نے ہندؤں کو لیز پر دے رکھا ہے۔
اب تو حال یہ ہے کہ تقریباً تمام صوبوں کے وقف بورڈ حکومت کے ذریعہ وقف ایکٹ میں تمام ترمیم کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ وقف ایکٹ میں جو ترمیم لائی گئی، ان بورڈز نے نہ صرف آنکھ بند کرکے اس کی تائید کی بلکہ اس کے بعد ایسے فیصلے بھی صادر کیے جن کا براہِ راست نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کو ہوا۔
حکومت تو کہہ رہی تھی کہ اس ایکٹ سے مسلمانوں کا بھلا ہوگا؟
اصل میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے پیچھے حکومت کی نیت کیا تھی۔ وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کا خیال حکومت کے ذہن میں کہاں سے آیا؟ وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم تو 2013 میں بھی ہوا ۔ اس ترمیم میں کئی سال لگے تھے، اس وقت بھی مخالفت ہوئی تھی، لیکن اس حکومت نے لوگوں کی بات سنی۔ مگر جب 2014 میں ملک میں حکومت بدلی، تو اس کے بعد ایک خاص ذہنیت کے چند لوگوں نے ایک نیا جھوٹا پروپیگنڈہ پورے دیش میں پھیلایا، جسے انہوں نے ’’لینڈ جہاد‘‘ کا نام دیا۔
پھر ہمارے اپنے لوگوں نے بھی ناسمجھی میں ایسے بیانات دیے جن سے بھرم بڑھا۔ کہا گیا کہ ریلوے اور ڈیفنس کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف کے پاس ہے۔ نیت مثبت تھی، لیکن ہندوتوا تنظیموں نے اسی کو منفی رخ دیدیا، اور پروپیگنڈہ پھیلایا کہ دیکھو، مسلمانوں کے پاس اتنی زمین ہے۔
یہ بات حقیقتاً درست نہیں ہے۔ صرف ڈیٹا کا ہیر پھیر ہے۔ آج آن لائن ڈیٹا موجود ہے۔ صرف تین ریاستوں میں ہندوؤں کے پاس جتنی زمین ہے، اتنی پوری ملک کی وقف جائیداد نہیں ہے۔ لیکن پروپیگنڈہ چلایا گیا اور ہندوتوا تنظیموں کے لوگ لگاتار اسے پھیلاتے رہے۔ حکومت نے بھی اسی جھوٹے پروپگنڈے کو آگے بڑھایا ہے، دراصل، مقصد مسلمانوں کے وقف کو ختم کرنا ہے۔ اگر واقعی حکومت مخلص ہوتی اور مسلمانوں کی بھلائی چاہتی تو سب سے پہلے ان وقف املاک کو مسلمانوں کو واپس کرتی جن پر حکومت نے خود ہی غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔
آپ نے کہا کہ حکومت نے خود وقف املاک پر قبضہ کر رکھا ہے، اس پر مزید روشنی ڈالیں گے؟
جی بالکل! یہ محض الزام نہیں، دستاویزی حقیقت ہے۔ اس ملک میں متعدد وقف جائیدادوں پر حکومتوں کا قبضہ ہے۔ 20 جولائی 2020 کو مرکزی وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت جو جانکاری ملی، اس کے مطابق ملک بھر میں کل 18,259 وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ 31,594 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مرکزی وقف کونسل کے مطابق ان میں جولائی 2020 تک 1,342 جائیدادیں اور 31,594 ایکڑ زمین مختلف سرکاری محکموں یا ایجنسیوں کے قبضے میں ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں۔ اس میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش کے شیعہ وقف بورڈ کے اعداد و شمار شامل ہی نہیں ہیں۔ ذرا سوچیے، اگر ان ریاستوں کا ڈیٹا بھی شامل کر لیا جائے تو ملک بھر میں قبضوں کی اصل صورتِ حال کتنی سنگین نکلے گی!
میڈیا میں وقف کے موضوع پر رپورٹنگ کم کیوں ہے، کیا یہ ناپسندیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے؟
نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے کہ میڈیا نے وقف پر رپورٹنگ نہیں کی۔ رپورٹنگ تو ہوئی ہے، مگر زیادہ تر منفی انداز میں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خود وقف بورڈ نے میڈیا کو مثبت کے بجائے منفی خبریں زیادہ فراہم کی ہیں۔ اور ہمارے کچھ بھائی جو وقف کے سلسلے میں مثبت کام کر رہے ہیں، میڈیا ان تک پہونچ نہیں پارہی ہے، یا ان کی پہونچ میڈیا تک نہیں ہے، سچ کہوں تو ملک میں ’لینڈ جہاد‘ کے جھوٹے پروپگنڈہ کو بڑھاوا دینے میں سب سے اہم رول میڈیا کا ہی رہا ہے۔
اس سے الگ اگر ہم دیکھیں تو وقف پر رپورٹنگ آسان بھی نہیں ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں بڑے مالی مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ جو صحافی اس پر قلم اٹھاتا ہے، اسے سیاسی دباؤ اور سماجی مخالفت دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وقف بورڈ بھی آپ کو ڈرانے کا کام کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے رہنما بھی ان مسائل کو دبانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی اپنی بدانتظامی یا بدعنوانی سامنے نہ آئے۔ اس لئے وقف پر رپورٹنگ اکثر پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ حالانکہ اگر صحیح معنوں میں کھوج لگائی جائے تو یہ سب سے بڑا عوامی مفاد کا موضوع ہے، کیونکہ اس کے پیچھے لاکھوں مسلمانوں کا مستقبل چھپا ہے۔
اپنی رپورٹنگ کے دوران آپ نے وقف جائیدادوں کے غلط استعمال یا بدعنوانی کی کون سی کہانی دیکھی جو آپ کو سب سے زیادہ چونکا دینے والی لگی؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ میں نے زیادہ تر اپنی رپورٹنگ کے دوران وقف کو برباد ہوتے دیکھا۔ دہلی کی مثال لیجئے! آر ٹی آئی کے ذریعے ملی معلومات نے چونکا دیا۔ پتا چلا کہ دہلی میں 86 وقف جائیدادیں ایسی ہیں جن کا ماہانہ کرایہ صرف ایک سے گیارہ روپے ہے۔ دہلی سے غائب ہوتے قبرستان کی کہانی نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا اور مجھے ہر وقت یہ فکر ستاتی ہے کہ آنتلے والے برسوں میں دہلی میں مسلمانوں کو تدفین کی جگہ بھی بمشکل ملے گی۔
لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ جب ریاست ہریانہ کے گروگرام (گڑگاؤں) میں مسلمان ہر جمعہ کو سڑکوں پر نماز کے لئے پیٹے جارہے تھے، یہاں جمعہ کے نماز کی ادائیگی ایک ’عالمی مسئلہ‘ بن چکا تھا، تب میں نے یہ اسٹوری کی تھی کہ اسی شہر میں وقف بورڈ نے کئی مساجد، قبرستان، درگاہیں اور وقف کی کئی جائیدادیں غیر مسلموں کو لیز پر دی ہوئی ہیں، اور یہ معلومات کسی اور نے نہیں بلکہ خود ہریانہ وقف بورڈ نے دی ۔
اعداد و شمار بھی چونکانے والے ہیں: صرف گڑگاؤں شہر میں وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ مسجدوں کی تعداد 35 تھی۔لیکن چھان بین کرنے سے پتہ چلا کہ ان میں 21 مساجد پر غیر قانونی قبضے ہیں اور قابضین سب کے سب غیر مسلمین ہیں جبکہ ایک مسجد پر پرائمری اسکول اور ایک مسجد پر گردوارہ بن چکا ہے۔ 11 مساجد کو موجود بتایا گیا ، لیکن ان میں کئی کی حالت بے حد خراب ہے اور بعض کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ میں نے خود جا کر دیکھا کہ بعض مسجدوں میں بھینسیں اور جانور باندھے جا رہے تھے۔
تو کیا یہ سب باتیں ہمارے مسلم رہنماؤں کے علم میں نہیں ہیں؟
سب کو اچھی طرح معلوم ہے، لیکن کوئی اس پر کام نہیں کرنا چاہتا۔ زیادہ تر رہنماؤں کی دلچسپی صرف اخباروں میں چھپنے تک محدود ہے۔ اگر موقع ملے تو یہی لوگ وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے والوں میں سب سے آگے نکل آئیں گے۔ ایک واقعہ بتاؤں: میں نے دہلی قبرستانوں پر کام کرنے کا سوچا، دہلی وقف بورڈ سے ڈیٹا ملا کہ یہاں 562 قبرستان ہیں۔ میں نے اس کی پوری فہرست بنائی، جو آج بھی ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔اس کے بعد میں نے کئی مسلم رہنماؤں سے درخواست کی کہ بس کوئی ایک ایسا شخص دے دیں جو بائیک چلا سکے تاکہ ہم مختلف جگہوں پر جا کر دیکھ سکیں کہ یہ قبرستان حقیقت میں موجود بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔ یہ مایوس کن واقعات بار بار سامنے آتے ہیں، اور یہی سب سے بڑا دکھ ہے۔
اگر صحیح معنوں میں استعمال ہو تو وقف کا مثبت کردار کیا ہو سکتا ہے؟
وقف ایک خالص اسلامی فلاحی نظام ہے جس کا بنیادی مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد، تعلیم، صحت، اور دیگر رفاہی شعبوں میں بہتری لانا ہے۔ اگر ہم نے اس کا بہتر استعمال کرلیا ہوتا توآج قوم میں اسکولوں کی کمی نہ ہوتی، لوگوں کو اپنے مرحومین کی تدفین کے لیے زمین نہ خریدنی پڑتی، لوگوں کو اپنے مرنے والوں کو دفن کرنے کے لئے زمین نہ خریدنی پڑتی، عام مسلمان پر یہ بوجھ نہ پڑتا۔
وقف کے مثبت استعمال کے لئے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اسے صرف مذہبی نہیں بلکہ سماجی و معاشی ترقی کا ذریعہ بھی سمجھیں۔ وقف کی آمدنی کو اگر شفافیت سے تعلیم، اسکالرشپس، اسپتالوں، یتیم خانوں، اور خواتین کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک خاموش انقلاب لا سکتا ہے۔
بیداری کیوں پیدا نہیں ہو سکی؟
جہاں تک بیداری کا تعلق ہے، اس میں میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سول سوسائٹی کا کردار کلیدی ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وقف صرف مسجد یا قبرستان کے لئے زمین دینے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک متحرک نظام ہے جو آج کے جدید فلاحی اداروں کا متبادل بن سکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ ہم نے وقف کے مثبت استعمال پر کبھی سوال نہیں اٹھایا۔ میں نے اس وقف ترمیمی ایکٹ آنے سے پہلے کسی علماء یا لیڈر کو وقف پر بات کرتے ہوئے نہیں سنا، اس ترمیم کے پہلے اس موضوع پر شاید ہی کسی مولانا نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو۔
تو کیا اب مسلم تنظیموں کی حالیہ سرگرمیوں سے کوئی بیداری آئی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اب بھی وہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر صرف پوسٹ ڈالنے تک محدود ہیں، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں جا کر وقف بورڈ سے سوال کرتے—کتنی زمین ہے، کہاں ہے، کس حالت میں ہے؟ اس سے بہت سی نئی حقیقتیں سامنے آتیں۔ اگر ہر شخص صرف اپنے علاقے کی وقف جائیداد کے تحفظ کا سوچ لے تو بڑی تبدیلی ممکن ہے۔ میں نے بار بار لوگوں سے کہا کہ اس سے متعلق حق اطلاعات ایکٹ یعنی آرٹی آئی سے سوال پوچھئے، سوشل میڈیا پر سو دو سو لوگوں نے کہا ’’ہاں! ہم آرٹی آئی کریں گے‘‘، کئی لوگوں نے فون کرکے پروسیس بھی پوچھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص نے بھی عملی طور پر قدم نہیں اٹھایا۔
سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی نظر میں کیا ہے؟
آج سب سے بڑی رکاوٹ وقف بورڈ خود ہیں، ان میں شفافیت اور جواب دہی کا فقدان ہے، اگر یہ ایمانداری سے کام کریں تو وقف سے اتنی آمدنی پیدا ہو سکتی ہے کہ اسکول، اسپتال، یتیم خانے سب چل سکیں، امام صاحب کو بھی باعزت تنخواہ دی جا سکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی وقف بورڈ سے سوال ہی نہیں کیا۔ ہمیشہ حکومت کو کوسا، مگر جس شخص کو حکومت نے وقف بورڈ میں بٹھایا، اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر ریاست کے وقف بورڈ میں بدعنوانی عام ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اب وقت ہے لوگ اپنے اپنے علاقوں کے وقف بورڈ اور متولی سے سیدھا سوال کریں—کتنی زمین ہے، کرایہ کتنا آ رہا ہے، آمدنی کہاں خرچ ہوتی ہے؟ اور یہ کام صرف عوام نہیں بلکہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کو بھی کرنا ہوگا، وہ فضائل کے ساتھ ساتھ احتساب کی اہمیت بھی بتائیں۔ اگر اب بھی ہم نے ان سب باتوں پر سوچنے میں دیری کردی، تو ہمارے ہاتھوں سے سب کچھ نکل چکا ہوگا۔
اس فیصلہ کے بعد ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے، مذمت بھی ہو رہی ہے!
دیکھئے! مذمت اپنی جگہ ضروری ہے، مگر صرف مذمت کافی نہیں۔ کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے، اس کے مثبت یا منفی دونوں پہلو پر بات ہونی چاہیے۔ ماہرین قانون کو بٹھا کر عدالتی فیصلے کی باریکیاں سمجھنی چاہیے، طے کریں کہ آگے کا قانونی لائحہ عمل کیا ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمیں خود کیا کرنا ہے۔ ہم خود کتنے ایماندار ہیں۔ یہ نہیں چلے گا کہ آپ خود وقف کی زمین پر قابض ہوں اور پھر عام مسلمانوں کے فائدے کی بات کریں۔ عوام بار بار پوچھتی ہے: ’’ہمارا فائدہ کیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب صرف عملی اقدامات سے دیا جا سکتا ہے، بیانات سے نہیں۔
آخری بات: آپ کا پیغام کیا ہے؟
سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت نے ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا، اصل ذمہ داری ہماری اپنی ہے۔ ہم نے کبھی وقف کے بارے میں سنجیدگی سے احتساب نہیں کیا، نہ مقامی سطح پر بیداری پیدا کی۔ ہمارے رہنما صرف بیانات تک محدود رہے اور عوام نے بھی کبھی وقف ایکٹ کو پڑھنے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
افسوس یہ ہے کہ وقف کو کبھی شریعت اور فضائل کے ساتھ جوڑ کر نہیں سمجھایا گیا، نہ یہ بتایا گیا کہ حساب لینا کتنا ضروری ہے۔۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب وقف کے مسائل سامنے آنے لگے تھے، ہم بیدار ہوتے۔ پوچھتے کہ آمدنی کم کیوں ہے؟ اگر وقف کی زمین پر دکان ہے تو کرایہ ایک روپیہ کیوں ہے؟ آزادی کے بعد کرایہ کیوں نہیں بڑھا؟
میرا کہنا یہ ہے کہ اصل ذمہ داری ہماری اپنی ہے۔ آج بھی وقت ہے۔ اگر آپ کے علاقے میں وقف کی کوئی زمین یا جائیداد ہے تو سب سے پہلے اس کی معلومات حاصل کریں۔ آر ٹی آئی فائل کریں، ریکارڈ مانگیں، اور اگر کوئی بدعنوانی نظر آئے تو اس پر سوال اٹھائیں۔ یہی اصل تحفظ ہے۔ ورنہ قوانین اور عدالتیں کچھ بھی کر لیں، حقیقی بہتری ممکن نہیں۔ اور تلخ سچائی یہی ہے کہ بہت کچھ تو ہمارے ہاتھوں سے نکل بھی چکا ہے۔
