ہائی کورٹ کی حکم عدولی: اتر پردیش میں مدارس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نہیں رکا
شراوستی/نئی دہلی 27 اگست (روایت ڈاٹ کام)
— اتر پردیش کے ضلع شراوستی میں مدارس ایک بار پھر انتظامیہ کے نشانے پر ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود کہ سیل کیے گئے 30 مدارس کو فوراً کھولا جائے، ضلعی حکام نے مدرسہ مسعودیہ دارالعلوم یتیم خانہ بشیر کو نیا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس اقدام کو مسلم تنظیموں اور ماہرین قانون نے عدلیہ کی توہین اور مسلم اداروں کو نشانہ بنانے کی مہم قرار دیا ہے۔

نوٹس میں مدرسے سے زمین، عمارتوں، نصاب، طلبہ کی تعداد (لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ)، فنڈنگ کے ذرائع، آڈٹ رپورٹس اور مینجمنٹ کمیٹی کی رجسٹریشن سمیت درجنوں تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ اس اچانک کارروائی سے ادارے کے اساتذہ اور طلبہ سخت پریشان ہیں۔ ایک استاد نے بتایا کہ بچے نوٹس کی خبر سن کر گھبرا گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا کلاسیں پھر بند ہو جائیں گی؟ دو بچوں کے والد محمد راشد نے کہا: "ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت مدارس کو ایسے دکھا رہی ہے جیسے یہ کوئی غیر قانونی کیمپ ہوں۔ آخر صرف مسلم تعلیم ہی کیوں نشانے پر ہے؟”
عدالت کے حکم کی خلاف ورزی
چند ہفتے قبل ہی الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے شراوستی کے 30 مدارس کو کھولنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ "تعلیم میں خلل نہیں آنا چاہیے۔” لیکن اس کے باوجود نوٹس جاری ہونے پر وکلا نے شدید اعتراض کیا ہے۔ مدرسہ مسعودیہ کے وکیل ایڈووکیٹ علی معید نے کہا: "یہ نوٹس ہائی کورٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حکومت مدارس کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور یہ طاقت کے غلط استعمال کی واضح مثال ہے۔”
سینئر وکیل فرحت حسین نے بھی اسے خطرناک نظیر قرار دیتے ہوئے کہا: "جب ضلعی حکام عدالتی احکامات تسلیم نہیں کرتے تو یہ پورے قانونی نظام کو کمزور کرتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانا سزا کے بغیر ممکن ہے۔”
منتخب نشانہ اور دوہرا معیار
یوپی مدرسہ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری دیوان صاحب زمان نے کہا: "انتظامیہ نے نہ صرف عدلیہ بلکہ مسلمانوں کے حقوق کی بھی پامالی کی ہے۔ پہلے غیر قانونی تالے کھولے جاتے، پھر کسی نوٹس کی گنجائش بنتی۔ اس طرح مدارس کو نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کا حق (RTE Act) نہ تو مدارس پر لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی ویدک اسکولوں پر۔ صرف مدارس کو الگ کرنا کھلی ناانصافی اور امتیاز ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ گزشتہ ایک سال میں یوپی کے کئی اضلاع میں مدارس پر اسی نوعیت کی کارروائیاں ہوئیں۔ عدالت کی مداخلت کے باوجود انتظامیہ کا رویہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ عدالتی احتساب سے بالاتر ہو۔
پس منظر اور اثرات
بھارت میں تقریباً 25 ہزار تسلیم شدہ مدارس اور لاکھوں غیر تسلیم شدہ ادارے موجود ہیں، جو خصوصاً غریب اور دیہی خاندانوں کے بچوں کے لیے بنیادی تعلیمی سہارا ہیں۔ ایسے میں بار بار کی کارروائی اور عدالتی احکامات کی پامالی صرف ایک ادارے یا ضلع کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے مسلم تعلیمی ڈھانچے کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔
مقامی علما نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے طرزِ عمل درست نہ کیا تو اس سے مسلم برادری میں بداعتمادی اور تلخی بڑھے گی۔ شراوستی کے ایک عالم نے کہا: "ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا ناقابلِ قبول ہے۔ یہ رویہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں کڑواہٹ پیدا کرے گا۔”
