یومِ اردو پر خصوصی پیشکش: زبان کی بقا، تہذیب کی حفاظت
افروز عالم ساحل ایک سنجیدہ اور فکری مزاج کے صحافی اور مصنف ہیں، جن کی پہچان سماجی انصاف کے مسائل پرخاص طور پر ہندی و انگریزی میں ان کی تحقیقی رپورٹنگ سے جڑی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اردو زبان اور اس کی تہذیبی روایت سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ تقریباً بارہ برس تک روزنامہ انقلاب میں ان کا مستقل کالم شائع ہوتا رہا، اور روزنامہ دعوت میں بھی تین برس تک انہوں نے مسلسل تحقیقی اور ہندوستان کے اقلیتوں کے تعلق سے رپورٹیں لکھیں، جس نے انہیں اردو دنیا میں بھی ایک معتبر اور متوازن آواز کی حیثیت عطا کی۔ انہوں نے مختلف ادبی جرائد اور رسائل میں بھی مستقل لکھا، اور اردو صحافت کے روایتی اداروں سے باضابطہ وابستگی نہ ہونے کے باوجود اپنی تحریروں میں اردو نثر کی تازہ ہوا، تہذیبی حساسیت اور فکری شفافیت برقرار رکھی۔

عالمی یومِ اردو کے موقع سے روایت ڈاٹ کام کے لیے غالب شمس نے ان سے ہندوستان میں اردو کی موجودہ صورتِ حال پر گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات:
اردو زبان کو آپ کس نظریہ سے دیکھتے ہیں؟
اردو میرے نزدیک صرف ایک زبان نہیں، بلکہ ایک تہذیب کا احساس ہے۔ اس میں محبت کی نرمی، اظہار کی شائستگی اور سوچ کی گہرائی سمائی ہوئی ہے۔ اردو نے ہمیشہ دلوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے، بانٹنے کا نہیں، یہ زبان ہمیں سکھاتی ہے کہ اختلاف کے باوجود گفتگو کا لہجہ مہذب رہ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اور اردو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی دس بڑی زبانوں میں شامل ہوچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 50 برسوں میں اضافہ کی شرح کے لحاظ سے اردو دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی زبانوں میں شامل ہے۔ 1971 میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 11.27 کروڑ تھی، جو بڑھ کر 2021 میں 23.17 کروڑ افراد کی زبان بن چکی ہے۔
اور ہندوستان میں اعداد و شمار کا منظرنامہ کیا ہے؟
اگر ہندوستان میں اعداد و شمار کی بات کریں تو 1971 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق، اس وقت اردو بولنے والوں کی تعداد صرف 2 کروڑ 86 لاکھ تھی، جو دس سال بعد 1981 میں ساڑھے 3 کروڑ ہو گئی۔ اس کے بعد 1991 میں یہ 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ 2001 کے مردم شماری میں یہ اعداد و شمار 5 کروڑ 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ مگر یہ کڑوی سچائی ہے کہ 2011 کی مردم شماری میں یہ تعداد تھوڑی کم ہوکر 5 کروڑ 7 لاکھ پر آگئی۔ یعنی اردو بولنے والوں میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں کی آبادی گھٹ گئی۔ یہ کمی خاص طور پر شمالی ہند میں سامنے آئی، جہاں نئی نسل انگریزی اخبار ہاتھ میں لے کر چلنے کو حیثیت سمجھنے لگی، چاہے انگریزی آتی ہو یا نہیں۔ یہ کمی تعلیمی ترجیحات، سماجی رویوں اور احساسِ کمتری کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اردو آئین کی 22 سرکاری زبانوں میں شامل ہے۔

یہ آٹھ لاکھ کی کمی آخر کیوں واقع ہوئی؟
وجوہات ہمارے سامنے ہیں، آپ خود دیکھ لیجئے کہ آج آپ اپنے بچوں کو کس میڈیم کے اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں اور آپ کی نظر میں اردو اور انگریزی بولنے والوں کی کتنی عزت ہے۔ جب آپ اس سوال کا جواب تلاش کر لیں گے تو ساری حقیقت خود بخود سامنے آ جائیں گی۔ میں ایسے کئی پروفیسر کو جانتا ہوں جو خود اردو زبان کے طالب علم رہے ہیں، اردو زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکے ہیں، لیکن جب انھیں اردو کی خدمت کرنے کا موقع ملا تو اردو سے سب سے زیادہ نفرت انہی حضرات نے کی۔ میں ایسے کئی افراد کو بھی جانتا ہوں جو خود اردو کی بدولت اچھی تنخواہ پر نوکری پا چکے ہیں، لیکن اپنے شاگردوں سے مفت میں ترجمہ کرواتے ہیں، یا جو رقم دیتے ہیں وہ بھی بہت معمولی ہوتی ہے۔ جبکہ وہ رقم انھیں اپنی جیب سے نہیں دینی ہوتی ہے، بلکہ وہ رقم تو ان کو جس کمپنی کا کام ہوتا ہے اس کمپنی کی جانب سے دی جاتی ہے۔آپ پتہ کیجئے کہ اردو اخباروں میں کام کرنے والوں کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے بھی اردو کے ساتھ سوتیلا برتاؤ ہے۔ وہیں ہندوتوا نظریے سے تعلق رکھنے والوں نے آہستہ آہستہ اردو کو اسلام اور پاکستان سے جوڑ دیا ، اور ملک کے عام لوگوں میں یہ تصور پھیلا گیا کہ اردو بولنا ”اینٹی انڈین“ ہونا ہے۔
اردو کو کب اور کیسے ’’ہندوستانی زبان‘‘ سمجھنے کے بجائے ’’مسلمانوں کی زبان‘‘ مانا جانے لگا؟
اردو کی پیدائش ہندوستان ہی میں ہوئی اور طویل عرصے تک یہ تمام ہندوستانیوں کی مشترکہ زبان رہی، یہاں تک کہ آریہ سماج جیسی تنظیمیں بھی اکثر اردو استعمال کرتی رہیں۔ برصغیر میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر اہمیت حاصل رہی۔ لیکن 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ’’بانٹو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہندی اور اردو کو الگ خانوں میں منظم کرنا شروع کیا۔ اسی دوران اردو کو "مسلمانوں کی زبان” کے طور پر دیکھنے کا رجحان بھی مضبوط ہوا، اور ہندی کے مقابلے میں اردو کے استعمال کو کم کرنے کی کوششیں بڑھیں۔ اسی دور میں بنارس کی ہندی تحریک نے سرکاری دفاتر سے اردو کے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ پھر ناگری پرچارنی سبھا اور ہندی ساہتیہ سبھا جیسی انجمنیں وجود میں آئیں، جنہوں نے اعلان کیا کہ ’’اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور ہندی ہندوؤں کی زبان‘‘۔ آزادی کے وقت یہ تفریق اور گہری ہوئی۔ ہندی کو قومی زبان اور اردو کو مسلم شناخت سے وابستہ کر دیا گیا۔ باوجود اس کے، اردو کئی دہائیوں تک ملک کی مشترکہ تہذیبی زبان رہی۔ آزادی کی تحریک کے دوران زیادہ تر نعرے اردو میں تھے ، جیسے ”انقلاب زندہ باد“۔ یہاں تک کہ سبھاش چندر بوس نے اپنی فوج کا نام ”آزاد ہند فوج“ رکھا ۔ اردو کے الفاظ ”آزاد“اور ”فوج“ کے ساتھ۔ تقسیم سے پہلے ہندو، سکھ، مسلمان — سب اسے بولتے اور لکھتے تھے۔ اردو کے کئی بڑے ادیب اور شاعر غیر مسلم رہے ہیں — جیسے پریم چند، فراق گورکھپوری یا راجندر سنگھ بیدی۔ گاندھی اور منموہن سنگھ جیسے رہنما اردو میں لکھتے اور پڑھتے رہے۔ پنجاب سمیت کئی علاقوں میں یہ روز مرہ کی زبان تھی، لیکن آہستہ آہستہ ہندو طبقہ اردو سے دور ہوتا گیا، اور مدرسوں میں اردو کی تعلیم محدود ہو گئی، اور اب ہندوستان میں اردو مکمل طور پر مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔
ہندوستانی میڈیا نے اردو سے فاصلہ کیوں اختیار کیا؟
میری نظر میں مکمل طور پر تو اردو زبان کو اب تک کسی نے بھی نہیں چھوڑا ہے، شاید یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ آج بھی ہندی میڈیا میں اردو الفاظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ خالص سنسکرت زدہ ہندی عام قاری کے لیے مشکل ہوتی ہے۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب وقت کے ساتھ حالات ضروربدل گئے ہیں، اردو مسلمانوں کی زبان بتاکر اس کے استعمال کو کم ضرور کردیا گیا، وہیں دوسری طرف اردو کی جگہ انگریزی لفظوں کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ ٹی وی چینلوں میں مشاعروں کی جگہ اب کوی سمیلن ضرور ہونے لگے ہیں۔ وہیں ہندوتوا تنظیمیں کی اردو دشمنی کی وجہ سے ریاستی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہونے والے سیاستدانوں کو اردو میں حلف لینے سے روکا جارہا ہے، فنکاروں کو اردو گرافٹی پینٹ کرنے سے روکا جارہا ہے۔اردو نا م والے شہروں اور محلوں کا نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔ اسکول کی نصابی کتابوں سے اردو الفاظ کو ہٹانے کے لیے درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ حکومت کی بھی اردو دشمنی کھل کر ظاہر ہوئی ہے، لیکن باوجود اس کے آپکو جان کر حیرانی ہوگی کہ جن ہندوتواوادی تنظیموں کے لوگوں کو اردو سےمسئلہ ہے، وہی بار بار اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کا اردو شعر کہتے پھرتے ”کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔۔۔۔“ یا پھر مرکزی وزیر کرن رجیجو صاحب کو جامعہ میں آکر کہنا پڑرہا ہے کہ ”اردو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے۔“ لیکن وہ اردو کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کریں گے۔ یہ واضح تضاد بتاتا ہے کہ مسئلہ زبان سے زیادہ سیاسی ذہن سازی کا ہے۔
کیا ڈیجیٹل دور اردو کے احیاء کے لیے نئے امکانات پیدا کر رہا ہے؟
جی ہاں، بالکل! سوشل میڈیا اور آن لائن تعلیمی وسائل نے نئی نسل میں اردو سیکھنے اور لکھنے کا شوق بڑھایا ہے۔سوشل میڈیا پر اردو میں لکھنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ نوجوان اب اپنی رفتار سے اور اپنی پسند کے اسلوب میں اردو سیکھ رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا نے اردو کو نئی آواز اور نیا دائرۂ گفتگو دیا ہے۔ آج دیکھ لیجئے کہ نیویارک شہر میں میئر الیکشن میں ظہران ممدانی اردو میں بھی اپنے الیکشن کا ایک ویڈیو بنایا تو سب کچھ سوشل میڈیا کی وجہ سے یا پھر سوشل میڈیا کی خاطر ہوا۔
لیکن سوشل میڈیا پر ایک مسئلہ اردو کے رسم الخط کے غائب ہونے یا انگریزی کے الفاظ کے شامل ہونے کا بھی ہے۔ اور میں نے اکثر دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ایساکرنے والوں پر ملامت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟
نہیں۔ زبان اظہار کی قوت ہے، رسم الخط اس کا ایک ذریعہ۔ تاریخ میں سر سید اور حالی نے بھی اردو میں ’’انیسویں صدی‘‘ کے بجائے ’’نینٹینتھ سینچری‘‘ لکھا۔ انگریزی اپنی لغت میں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل کرتی رہتی ہے، کوئی ملامت نہیں کرتا۔ہندی ساہتیہ کو بھی اٹھاکر دیکھ لیجئے، اردو کے بےشمار الفاظ مل جائنگے۔ ترکی زبان کو ہی دیکھ لیجئے، ۱۹۲۸ میں پوری رسم الخط تبدیل کردی گئی، لیکن زبان اب بھی موجودہے، بلکہ پہلے کے مقابلے زیادہ پھلی پھولی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اردو کو رومن میں لکھتا ہے، تو یہ زبان کی موت نہیں۔ زبان کی زندگی کا ایک نیا راستہ ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی ہے کہ ترکیہ کے کئی یونیورسٹیوں میں اردو کا شعبہ قائم ہوچکا ہے، لیکن یہاں اردو ترکش اسکرپٹ میں لکھی و پڑھی جارہی ہے۔ ماضی میں کئی ایسے اخبارات تھے جو انگریزی زبان میں ہونے کے باوجود ایک صفحہ اردو کے لئے مختص کرتے تھے اور "رومن اردو” میں خبروں کو شائع کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ’فوجی اخبار‘ دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزی کے اس اخبار میں اردو کا بھی ایک گوشہ مختص تھا، جہاں اردو انگریزی رسم الخط میں پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن اردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھے جانے سے اردو زبان پر کوئی فرق نہیں پڑا، اگر فرق پڑتا تو شاید اب تک اردو زبان ختم ہوچکی ہوتی۔یاد رکھیں! اردو ہمیشہ سے ایک زندہ اور لچکدار زبان رہی ہے، جو دوسری زبانوں سے الفاظ لے کر بھی اپنی شناخت برقرار رکھتی ہے۔
تو پھر آپکی نظر میں مسئلہ کہاں ہے؟
اصل مسئلہ اردو والوں کے اپنے رویّوں کا ہے۔ اردو کے بہت سے طالبِ علم، پروفیسر اور اداروں میں رہنے والے اشخاص اردو کے عملی فروغ میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اردو سے روزی کمانے والے بھی اکثر نئے لکھنے والوں کو نہ سہارا دیتے ہیں، نہ عزت۔ فنڈ، ادارہ سازی، اشاعت، اور سرپرستی کے میدان میں عملی قدم اٹھانے کے بجائے شکوہ اور نعروں پر زور دیا جاتا ہے۔ اتفاق سے ایک فلم فیسٹیول کی جیوری میں شرکت کا موقع ملا۔ میری خواہش تھی کہ اردو زبان کی فلم یا ڈاکیومنٹری کو الگ سے ایک ایوارڈ دیا جائے تاکہ نئی نسل اردو فلم بنانے کے بارے میں سوچے۔ لیکن افسوس، ایک بھی فلم ایسی نہیں ملی جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ وہ ’’اردو فلم‘‘ ہے۔
سال ۲۰۱۵ میں دہلی کے وگیان بھون میں ۶۲ ویں نیشنل فلم ایوارڈس میں شامل ہوا، اس میں جاکر معلوم ہوا کہ یہاں فلموں کو ایوارذ زبان کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انگریزی، ہندی، بنگالی، مراٹھی، تمل، ملیالم، کنڑ، کوکنی، ہریانوی اور یہاں تک کہ بھوجپوری اور منی پوری زبان کی فلموں کو بھی ایوارڈ ملا، لیکن اردو اس میں کہیں شامل نہیں تھی۔ تب یہ سوال میرے دل و دماغ میں آیا کہ آخر ایسا کیوں؟ ا اس کے بعد میں نے اپنے فلم بنانے والے کئی دوستوں سے بات کی اور مشورہ دیا کہ وہ اپنی اگلی فلم اردو زبان میں بنائیں، لیکن کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ ہاں! میرے ایک ہندی جاننے والے دوست جسے ایک مراٹھی فلم کے لئے نیشنل ایوارڈ مل چکا ہے،کو یہ آئیڈیا ضرور پسند آیا اور اس نے کہا کہ ہم ایک اردو فلم ساتھ مل کر بنائیں گے، لیکن نیشنل فلم ایوارڈس میں بھیجنے کے لئے کوالیٹی کافی معنی رکھتی ہے، اس کے لئے کچھ پیسہ بھی خرچ کرنا پڑےگا، اور تم اردو کے چاہنے والوں کو جانتے ہو، تو ان سے کچھ فنڈ کا انتظام کرواؤ۔ افسوس مجھ سے اس فنڈ کا انتظام آج تک نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد میں نے اپنے خاص دوست ریاض عالم سے بات کی اور طے کیا کہ یوٹیوب چینل بنایا جائے جہاں ہم اردو کے حوالے سے ویڈیوز بناکر پوسٹ کریں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے اس کام کے لئے ڈومین بھی خرید لیا تھا، سوشل میڈیا پر اکاونٹ بھی بنا لیا تھا۔ جوش میں آکر اس کام کے لئے اچھی کوالیٹی کا کیمرہ بھی خرید لیا۔ لیکن جب اس کام کی شروعات کی تب پتہ چلا کہ اس کام کی کامیابی کے لئے فل ٹائم کام کرنا ہوگا۔ اب میرے لئے نوکری چھوڑکر یہ کرنا ناممکن تھا، حالانکہ ریاض بھائی اپنی نوکری کی قربانی دینے کو تیار تھے، تب میں نے ہی انھیں مشورہ دیا کہ ایسا نہ کریں۔ ہم نے اس کے بزنس ماڈل پر بھی سوچا۔ ہمیں لگا کہ بیس تیس محبان اردو کا ایک گروپ بناکر ایک کارپس فنڈ جمع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سارے محبان اردو سو روپے بھی دینے کی اوقات نہیں رکھتے تھے یا وہ اس سلسلے میں کوئی دلچسپی دکھانے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے ہمیں اس آئیڈیا کو ملتوی کرنا پڑا۔ صرف اتنا ہی نہیں، میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں کئی رپورٹیں لکھی، جس کے اردو کے تعلق سے متعدد فیکٹس سامنے آئے، جیسے تمام سرکاری دفاتر میں اردو اخباروں کا نہ آنا یا پھر دہلی میں اردو ٹیچروں کی بحالی کا نہ ہونا، اردو اکاڈمی جیسے اداروں کا سارا فنڈس صرف مشاعروں پر خرچ ہونا، وغیرہ ۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر میں متعد د لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان مسئلوں کو لے حکومت کے پاس ڈیلیگیشن لے کر جائیں اور اپنی بات رکھیں، یہ دور یوپی اے کا تھا، لیکن کسی اردو کے نام نہاد محبت کرنے والے نے اس جانب توجہ نہیں دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو والے آواز کم، دعوے زیادہ کرتے ہیں۔ اب تو اردو کو پوری طرح سے ”مسلمانوں کی زبان“ سمجھا جانے لگاہے ۔ یہ تصور خاص طور پر اس وقت سے بڑھا ہے جب 2014 میں بی جے پی کی حکومت بنی۔ شدت پسند ہندو نظریے والے لوگ اردو کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔
اردو کے لیے عملی طور پر کیا کرنا ضروری ہے؟
اگر سچ میں اردو زبان کی فکر ہے تو پہلے خود اردو کی اہمیت کو سمجھئے، اپنے بچوں کو اردو زبان میں تعلیم دلوائیے۔ اردو میں لکھنے والی نئی نسل کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ خود اردو میں لکھی کتابوں کو مصنف سے مفت مانگنے کی بجائے انھیں خریدیے۔ اردو اخباروں کو خریدیے۔ اردو ویب سائٹوں پر شائع مضامین و خبروں کو پڑھئے اور ان کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیجئے۔ لیکن نہیں! آپ ایسا نہیں کرینگے، آپ تو دکھاوے کے لئے انگریزی کے مضامین ہی شیئر کریں گے، بھلے ہی آپ کو خود انگریزی آتی ہویا نہ آتی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مہم اس بات کی چلائی جائے کہ لوگ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ مہم اس بات کی چلائیے کہ لوگ آئندہ ہونے والی مردم شماری میں اپنی زبان اردو لکھوائیں، بھلے ہی وہ اردو کو رومن اردو میں لکھتے رہے ہوں۔ مہم اس حکومت کے خلاف چلائیے جو اردو کے ساتھ سوتیلہ برتاؤ کر رہی ہے اور اردو کو سرکاری نوکریوں سے غائب کرتی جا رہی ہے۔ مہم ان کے خلاف چلایئے جو کسی سرکاری ادارے کا ممبر بننے کے لئے اندریش کمار کے ساتھ دور سے سیلفی لیتے ہوئے انہیں ’عاشق اردو‘ بتاتے ہیں۔
بیسیوں کوتاہیوں کے باوجود ہمیں زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بس ضرورت ہے تو اپنے احساس کمتری کو ختم کرنے کی۔ دنیا کی دیگر تمام زبانوں میں کام کرنے والا شخص اپنی زبان پر فخر کرتا ہے، لیکن میں نے اردو والوں کو صرف احساس کمتری کا شکار ہوتے پایا ہے، بس اب اس احساس کو اپنی زندگی سے نکال دینے کا وقت آچکا ہے۔منفی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے مثبت انداز میں یہ سوچیں کہ ہم اردو کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت میں اردو کی تحریری شکل کمزور ہوئی ہے، لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں اردو نے نئی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی اردو بولنے والے لوگ بڑی تعداد موجود ہے۔
