یوپی حکومت کا نیا حکم نامہ مدرسوں میں نئی تقرریوں پر مکمل پابندی، اساتذہ تنظیموں کا عدالتی چارہ جوئی کا اعلان
لکھنؤ، یکم اگست (روایت ڈاٹ کام)
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے مدرسہ اساتذہ کی تقرری کے حوالے سے ایک نیا اور سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ریاست کے امداد یافتہ مدارس میں نئی تقرریوں پر مکمل پابندی عائد ہے، اور یہ پابندی 25 اپریل 2025 کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی زیر صدارت محکمہ اقلیتی بہبود کی جائزہ میٹنگ میں دی گئی ہدایت کے تحت نافذ کی گئی ہے۔

نئے جاری کردہ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف مستقبل کی تقرریاں، بلکہ 25 اپریل سے قبل جاری کی گئی تقرریوں کی کارروائیوں کو بھی مالی منظوری نہیں دی جائے گی، جب تک مدارس سے متعلق نئے ضابطے طے نہیں کر دیے جاتے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ریاست میں مدرسوں کی تعلیمی خودمختاری اور اقلیتی تعلیم کے تحفظ کو لے کر بحث جاری ہے۔
محکمہ اقلیتی بہبود کے ڈپٹی سکریٹری انل کمار یادو کی جانب سے یوپی مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار آر پی سنگھ کو جاری اس حکمنامے میں 23 مئی 2025 کو کابینی وزیر کی صدارت میں ہوئی میٹنگ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس میں تقرریوں پر مکمل روک کا فیصلہ دہرایا گیا تھا۔
متوفی اساتذہ کے زیر کفالت افراد کی بحالی بھی متاثر
حکومت کے اس نئے فیصلے سے نہ صرف عام تقرریوں بلکہ ان اسامیوں پر بھی اثر پڑا ہے جو ایسے اساتذہ کی وفات کے بعد ان کے زیر کفالت افراد کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے قومی نائب صدر مولانا طارق شمسی نے اسے انسانی ہمدردی اور بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا: "متوفی ملازمین کے اہل خانہ کے لیے یہ نظام کسی ریلیف سے کم نہیں تھا، اور اب اس پر بھی پابندی لگا دینا ظلم کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس غیر انسانی فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے۔”
اساتذہ تنظیموں کا شدید احتجاج، قانونی چارہ جوئی کا اعلان
ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ، یوپی کے جنرل سکریٹری دیوان صاحب زماں خاں نے اس حکمنامے کو یکسر غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
” کسی بھی قانون کا اطلاق اس دن سے ہوتا ہے جس دن وہ نافذ ہوتا ہے، بیک ڈیٹ سے اس کا اطلاق کرنا ضابطے اور انصاف دونوں کے خلاف ہے۔ ہم عدالت سے رجوع کریں گے اور متاثرہ اساتذہ کو انصاف دلائیں گے۔”
پس منظر اور اعدادوشمار
ہندوستان ٹائمز اور دیگر معلومات کے مطابق یوپی مدرسہ بورڈ سے فی الحال تقریباً 16,000 مدرسے منسلک ہیں، جن میں سے صرف 560 مدرسے سرکاری امداد یافتہ ہیں۔ ان امدادی مدارس میں تقریباً 42,000 اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ان مدرسوں میں تقریباً 17 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب مدرسہ اساتذہ پہلے ہی مالی بحران، اسناد کے مسئلے، اور بنیادی سہولیات کی کمی سے نبرد آزما ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ قدم اقلیتی تعلیمی اداروں کو مزید حاشیے پر دھکیلنے کے مترادف ہے۔
مدارس کی آزادی یا دباؤ؟
مدارس کی نمائندہ تنظیموں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دانستہ طور پر مدرسوں کو غیر فعال بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے جس میں صرف کامل و فاضل کی اسناد کو تقرری کے لیے ناکافی قرار دیا گیا، لیکن دیگر اسناد پر پابندی کی کوئی بات نہیں کہی گئی۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تقرریوں پر روک لگانا ہی چاہتی ہے تو اسے آئندہ کی تاریخ سے نافذ کرے، اور پرانی تقرریوں کو تسلیم کرے، ورنہ یہ فیصلہ نہ صرف غیر قانونی ہوگا بلکہ عدالت میں زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔

ماشاءاللہ
بہت شاندار اور نمایا خدمت اس پلیٹ فورم سے ہورہی ہے، بہت دنوں سے ایسے کام کی ضرورت تھی۔
اللہ تعالیٰ تعالیٰ شرف قبولیت سے بخشے! اور تسلسل دے! آمین