یوپی: مسلم اداروں پر بلڈوزر راج، کیا ہے حقیقت؟
سہیل انجم
کسی حد تک عدالتی رکاوٹوں کے باوجود مسجدوں، مدرسوں اور عید گاہوں پر انہدام کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے اور اس تلوار کے اس وقت تک ہٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے جب تک کہ ملک میں اور خاص طور پر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

یوں تو بی جے پی اقتدار والی تمام ریاستوں میں انہدام کا خطرہ ہے لیکن سب سے زیادہ خطرہ اترپردیش میں بنا رہتا ہے۔ یہاں مختلف بہانوں سے مدارس کی جانچ اور ان کی سیلنگ اور انہدام کی کارروائی جاری ہے۔ اُن مدارس کے لیے سب سے زیادہ خطرہ ہے جو ہند نیپال سرحد پر سدھارتھ نگر، بلرام پور، بہرائچ، مہراج گنج، شراوستی اور لکھیم پور کھیری اضلاع میں واقع ہیں۔ ان اضلاع میں پولیس اور ریونیو محکمے کے اہل کاروں کی مشترکہ ٹیمیں مدارس کا جائزہ لے رہی ہیں اور کچھ کو منہدم بھی کر رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی خاص طور پر سرحدی علاقوں میں ناجائز قبضوں کے خلاف حکومت کی زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت اور غیر منضبط مذہبی توسیع کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست میں 350 سے زائد ایسے مسلم مذہبی مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے جن کو غیر قانونی بتایا جا رہا ہے اور جن میں مدارس، مساجد، مزاراور عید گاہ شامل ہیں۔ ان کو یا تو سیل یا منہدم کیا جا رہا ہے۔ یہ کارروائی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر کی جا رہی ہے۔ لیکن اس فہرست میں غیر مسلم مذہبی مقامات نہیں ہیں۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ مسلمان سرکاری زمینوں پر قابض ہیں اور انھوں نے عوامی مقامات پر مسجد، مدرسہ، عیدگاہ اور مزار بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے مدارس، مساجد، مزار، عید گار اور قبرستان غیر قانونی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق بیشتر مدارس رجسٹرڈ ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
ویسے اگر ہم شراوستی ضلع کے ایک مدرسے ’انوار العلوم‘ کی مثال کو سامنے رکھیں تو مسلمانوں کا دعویٰ بڑی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ مدرسے کو اقلیتی محکمہ نے یہ کہتے ہوئے 27 اپریل کو سیل کر دیا تھا کہ وہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ حالانکہ مدرسے کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ وہ 1974 ہی میں رجسٹر کرایا گیا تھا لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔ مدرسے کی انتظامیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اس کارروائی کو چیلنج کیا اور عدالت نے انتظامیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے کھولنے کا حکم دے دیا۔ جس پر حکام نے جا کر سیل کو توڑا اور مدرسے کو کھولا۔ پولیس اور انتظامیہ کی اس قسم کی کارروائیوں سے مسلمانوں میں خوف و ہراس بھی پیدا ہو رہا ہے۔ بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق سنبھل ضلع کے اسمولی بلاک کے اچوڑہ کمبوہ گاوں کے مسلمانوں نے سالوں پرانی ایک مسجد کو انتظامیہ کے اس دعوے کے بعد خود ہی منہدم کرنا شروع کر دیا کہ وہ غیر قانونی ہے۔ ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اترپردیش کے ضلع سنت کبیر نگر میں ایک بڑی مسلم آبادی ہے جس کا نام ہے ’لوہرسن‘۔ کم از کم دس ہزار کی آبادی والے اس قصبہ نما گاوں میں ہندووں کی تعداد بمشکل دس بارہ فیصد ہوگی۔ آبادی کے باہر لبِ سڑک تقریباً سو سال پرانا ایک قبرستان ہے۔ اس سے متصل مشرق میں ایک عیدگاہ ہے وہ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ عیدگاہ کے جنوب میں ایک بہت بڑا تالاب ہے۔
مسلمانوں نے عیدگاہ کے سامنے 70 بائی 70 فٹ کا ایک قطعہ آراضی خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی۔ ابھی اس کی بنیاد بھی پوری طرح مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ پولیس نے اس کی تعمیر روک دی۔ عید الاضحی کو نماز دوگانہ کے بعد جب تعمیری سلسلہ شروع کرنے کی تیاری چل رہی تھی تو مقامی تھانے کے اہل کاروں نے وہاں پہنچ کر اس کے خلاف شکایت کی بات کہی۔ لیکن نہ تو شکایت کنندہ کا نام بتایا گیا اور نہ ہی تعمیر روکنے کی کوئی معقول وجہ بتائی گئی۔ ہم نے بچشم خود اس جگہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ منتظمین نے ہمیں بتایا کہ ان کے کاغذات مکمل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کام بند کرا دیا گیا۔ ان کے مطابق چند مقامی غیر مسلموں کی شکایت پر قبرستان اور تالاب کے سلسلے میں ایک معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لیکن مسجد کی زمین غیر متنازع ہے۔ اس کے باوجود تعمیر رکوا دی گئی۔ منتظمین کی جانب سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن تادم تحریر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قبرستان کے متنازع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ بنجر (عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختص کی گئی جگہ) ہے۔ لیکن مقامی مسلمان تادم تحریر اس حصے کو سرکاری کاغذات میں قبرستان کا حصہ فرج نہیں کرا سکے ہیں۔
دراصل دیہی علاقوں میں چک بندی کے دوران عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی زمینیں بنجر اور گرام سبھا کے نام پر چھوڑ دی جاتی ہیں۔ پنچایتی راج ایکٹ 1992 کے مطابق ان زمینوں کو نجی مقاصد کے لیے فروخت یا منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں صرف کمیونٹی کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ اسکول،مدرسہ، اسپتال،پنچایت گھر، کھیل کا میدان یا چراگاہ بنانا۔ ہاں ایسی زمینیں غریبوں کو الاٹ کی جا سکتی ہیں لیکن الاٹمنٹ شفاف طریقے سے اور گرام سبھا کی منظوری ار نگرانی میں ہونا چاہیے۔ پہلے جب ملک میں مذہبی کشیدگی کا ماحول نہیں تھا تو ایسی بہت سی زمینوں پر مسجد، مندر اور مدرسے قائم کیے جاتے رہے ہیں جن میں سے بہت سے آج بھی موجود ہیں۔ لیکن اب ایسی زمینوں پر واقع مسجدوں اور مدرسوں پر بھی خطرے کی تلوار لٹک گئی ہے۔ خود لوہرسن میں بنجر زمین پر تقریباً 70 سال پرانا ایک مدرسہ اور اس سے متصل ایک مندر موجود ہے۔ تادم تحریر اس مدرسے کے خلاف کوئی جانچ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن شکایت کی صورت میں جانچ اور کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی ناجائز قبضوں اور غیر قانونی تعمیرات کی آڑ میں کارروائی کی جا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں سڑکوں کے درمیان اور راستوں پر بھی مندر بنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے آمد و رفت میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔
خود دہلی میں ایسے کئی مندر موجود ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں کوئی جانچ نہیں ہوتی نہ ہی انہدامی کارروائی ہوتی ہے۔ چند ایک مندورں کو بدرجہ مجبوری منہدم کیا گیا ہے لیکن باقی اپنی جگہوں پر جوں کے توں موجود ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم دشمن عناصر مسلم مقامات کے بارے میں چھان بین کرتے رہتے ہیں اور جہاں ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں تعمیر سرکاری زمین پر ہے یا کاغذی کارروائی مکمل نہیں ہے، فوراً اس کے خلاف شکایت درج کراتے ہیں اور پولیس کارروائی کرنے دوڑ پڑتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا خطرہ ہے کہ آگے چل کر دیہی علاقوں میں بھی انہدامی کارروائی شروع ہو جائے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے مدارس ومساجد کے منتظمین کی جانب سے کاغذی کارروائی مکمل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی جاتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اور جب ہوگی تب دیکھا جائے گا۔ جبکہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر مدارس، مساجد اور عید گاہوں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے، اپنے کاغذات مکمل کرا لیں۔ حالانکہ اب کاغذات مکمل کرانے یا مدرسوںکو رجسٹر کرانے یا پھر مدرسہ بورڈ سے ان کو منظوری دلانے میں رشوت ستانی کا زبردست بول بالا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام لاکھوں لاکھ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کم پیسوںمیں ہی اپنا کام کرا لیتے ہیں۔ بہرحال جانچ اور انہدام کی اس صورت حال کے لیے صرف حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مسلمان بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ جب انھیں معلوم ہے کہ حکومت پاتھ دھو کر ان کے اداروں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے تو وہ اپنے کاغذات مکمل کیوں نہیں کراتے اور جو ادارے رجسٹرڈ یا منظور شدہ نہیں ہیں ان کو رجسٹر یا منظور کیوں نہیں کراتے۔
