مدارس کے طلبہ کی منتقلی کا معاملہ: سپریم کورٹ نے جمیعت کو ہائی کورٹ سے رجوع کی اجازت دی، عبوری تحفظ میں توسیع
نئی دہلی، 4 اگست (روایت ڈاٹ کام)
سپریم کورٹ نے پیر کے روز جمیعت علمائے ہند کی اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس سے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے سے متعلق این سی پی سی آر (قومی کمیشن برائے تحفظ حقوقِ طفل) کی ہدایات کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ چونکہ درخواست گزار کو پہلے ہی عبوری ریلیف حاصل ہے، اس لیے وہ چاہے تو ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔ عدالت نے اس عبوری حکم میں توسیع بھی کر دی، جس کے تحت اترپردیش، تریپورہ اور دیگر ریاستوں کی جانب سے مدارس کے خلاف کیے گئے اقدامات پر روک لگی ہوئی ہے۔
درخواست گزار کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 30، سے جڑا ہوا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں ہی سنا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تین رکنی بینچ پہلے ہی اس پر عبوری حکم جاری کر چکا ہے اور وہ حتمی سماعت کے لیے تیار ہیں۔
تاہم، جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ہائی کورٹ بھی ایک آئینی عدالت ہے اور اس میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا:
"آپ کو پہلے سے جو تحفظ حاصل ہے وہ برقرار رہے گا، اور ہم آپ کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔”
عدالت نے درخواست گزار کو مشورہ دیا کہ وہ ہائی کورٹ پر اعتماد رکھے اور اس معاملے کو وہاں اٹھائے۔
اور درخواست گزار کو وقت دیتے ہوئے سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
پس منظر
این سی پی سی آر نے 7 جون 2024 کو اترپردیش کے چیف سیکریٹری کو ایک مراسلہ بھیجا تھا جس میں ان مدارس کی شناخت اور ان کی منظوری واپس لینے کی ہدایت کی گئی تھی جو رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009 کے تحت مطلوبہ شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ بعد ازاں 25 جون کو مرکزی وزارت تعلیم کو بھی ایک ہدایت جاری کی گئی، جس میں تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کہا گیا کہ وہ مدارس کی جانچ کریں، غیر تسلیم شدہ اداروں کی منظوری ختم کریں اور ان کا UDISE کوڈ معطل کر دیں۔
اس کے بعد ریاستی حکومتوں، بالخصوص اترپردیش اور تریپورہ نے مدارس کے طلبا کی منتقلی سے متعلق اقدامات شروع کیے، جنہیں جمیعت علمائے ہند نے مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق، بالخصوص آرٹیکل 30، کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا۔
ابتدائی سماعت میں عدالت نے ان تمام ہدایات اور ریاستی اقدامات پر روک لگاتے ہوئے تمام ریاستوں اور مرکز کو نوٹس جاری کیے تھے۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اس معاملے میں تمام متاثرہ فریقین کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی آزادی ہے۔
(ترجمہ و ترتیب: روایت نیوز، ماخذ: لائیو لا و دیگر قومی ذرائع)
