اتراکھنڈ میں مذہب شناخت اور آئین کی جنگ
غالب شمس
"ہم نے عدالت سے ثابت کر دیا کہ مکاتب کو بند کرنا غیر قانونی تھا۔
اب اجتماعی طور پر مدارس کے لیے رِٹ داخل ہونے جا رہی ہے”
روایت سے ایک خاص بات چیت میں توفیق الٰہی قاسمی نے یہ بتایا، جو خود دینی ادارے سے وابستہ ہیں۔ جامعہ عربیہ مدرسۃ المؤمنین میں عربی کے استاد اور مفتی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ جمعیۃ علماء ہند کے رکنِ منتظمہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحفظِ اوقاف کمیٹی کے نائب کنوینر بھی ہیں۔ اتراکھنڈ میں مدارس کی تالا بندی کے خلاف جاری قانونی و تنظیمی جدوجہد میں یہ پیش پیش ہیں۔

کارروائی کیسے شروع ہوئی؟
اتراکھنڈ میں یکم مارچ 2025 کو رمضان کے مقدس مہینے میں مدارس پر اچانک کارروائی شروع ہوئی۔ بغیر اطلاع اور نوٹس کے سرکاری افسران آئے، مدارس بند کیے ، تالا لگایا۔
مدرسے کی منتظمہ میں سے کوئی ہے یا نہیں، اس سے انہیں کوئی بحث نہیں تھی ،
مدرسے میں بعض جگہوں پر کوئی ایک آدمی بھی نہیں مل سکا،
سیلنگ کے ایک ماہ بعد، وہ بھی بیک ڈیٹ میں نوٹس تھمائے گئے۔
پہلی کارروائی دہرہ دون میں ہوئی۔ جمعیۃ کے اتراکھنڈ ونگ کے مقامی ذمہ داران نے سپریم کورٹ کا پرانا فیصلہ افسران کو دکھایا کہ مدارس کو بند نہیں کیا جا سکتا—لیکن ڈی ایم صاحب نے کہا کہ ہم نے تو مدرسوں کو سیل نہیں کیا ہے، وہ اس کے انکاری ہو گئے، حالانکہ انہی کے افسران نے آ کر مدرسے کو سیل کیا تھا۔! اس کے برعکس، مدرسہ والوں کو ایم ڈی ڈی اے(Mussoorie Dehradun Development Authority ) (نقشہ وکاس پریشد) کے نام سے نوٹس بھیجے گئے۔ پھر یہی کارروائی ہریدوار، نینی تال، ہلدوانی، اُدھم سنگھ نگر اور رام نگر وغیرہ تک بڑھتی چلی گئی۔
کارروائی کا دائرہ
اب تک 214 سے زائد مدارس سیل کیے جا چکے ہیں۔
کئی گھروں کو محض اس بنیاد پر سیل کر دیا گیا کہ وہاں کوئی شخص اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو نجی طور پر دینی تعلیم دے رہا تھا، حالانکہ وہ ادارے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی نہیں تھے۔ مولانا رئیس کا ذاتی مکان بھی سیل کیا گیا، جہاں وہ اپنے گھر کے بچوں کو صرف عصری تعلیم کے بعد بنیادی دینی تعلیم دیتے تھے۔
مدارس کی سیل بندی سے قبل نوٹس اور کارروائی کی نوعیت:
مدارس کی سیل بندی سے قبل حکومت کی جانب سے کوئی واضح یا متعینہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ صرف ایک عمومی نوٹس دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ جو بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں، ان کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرا دیا جائے۔ یہ نوٹس بھی صرف رسمی نوعیت کا تھا۔
واضح رہے کہ جن مکاتب میں تعلیم دی جاتی تھی، وہاں کے اکثر بچے پہلے ہی دن میں سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے، اور صرف صبح یا شام کے اوقات میں دینی تعلیم (مکتب) کے لیے آتے تھے۔ مثال کے طور پر، مدرسہ ارشاد العلوم، دھندیرہ (رڑکی کے قریب) میں بچے صبح دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول چلے جاتے تھے اور شام کو واپس آکر مغرب کے بعد دوبارہ دینی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
قانونی محاذ پر کوششیں
3 مارچ کو جمعیۃ کے ایک وفد نے مولانا ارشد مدنی سے ملاقات کی۔
وکلا سے مشورے کے بعد سپریم کورٹ میں رِٹ داخل کی گئی۔
ابتدائی سماعتوں میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا گیا، مگر 7 مئی کو سپریم کورٹ نے معاملہ نینی تال ہائی کورٹ کو بھیج دیا۔
اب مختلف میٹنگوں، مشوروں اور وکلاء کی رہنمائی سے اجتماعی رِٹ ہائی کورٹ میں دائر کی جا رہی ہے۔
ایڈوکیٹ طلحہ عبدالرحمن، فضیل ایوبی، سیما قیوم، اور ایم آر شمشاد اس قانونی جدوجہد میں شامل ہیں۔
مکاتب کی بحالی: ایک جزوی کامیابی
حافظ شاہ نظر کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی نے حکومت کے دعوے کو جھٹلا دیا۔
مدرسہ بورڈ نے خود تسلیم کیا کہ مکاتب کے لیے منظوری لینا ضروری نہیں۔
اس بنیاد پر وکلا نے عدالت سے مکاتب کی بحالی میں کامیابی حاصل کی۔
مدارس کیوں نہیں لیتے "مانیتہ”؟
2019 کی گائیڈ لائن میں مدرسہ بورڈ کی منظوری لازمی نہیں، اختیاری ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مدرسہ بورڈ خود بھی رجسٹرڈ نہیں۔
اس کی اسناد نہ اسکول قبول کرتے ہیں، نہ یونیورسٹی، نہ پاسپورٹ آفس۔
اسی لیے اکثر مدارس شکشہ وبھاگ یا خود مختار نظام تعلیم کے تحت چلتے ہیں۔
مدرسہ بورڈ کی منظوری لینا ان کے لیے خود کو "تاریکی میں دھکیلنے” کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
حکومتی رویہ: مذہبی امتیاز؟
ریاست کے وزیر اعلیٰ شری پشکر سنگھ دھامی نے خود بیان دیا کہ پولیس فورس کو بھیج کر مدارس کی جانچ کرائی جائے گی۔
اس کے بعد ہی کارروائی تیز ہوئی۔
قاسمی کے مطابق:
"یہ کارروائی سیاسی ہے، انتظامی نہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دینی تعلیم پر قدغن لگانے کی منظم کوشش ہے۔”
یہ مکمل کارروائی یکطرفہ ہے، اور صرف مسلمانوں کے مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاست میں دیگر مذاہب کے ادارے جیسے پاٹھ شالہ یا گروکل وغیرہ، ان میں بھی مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
زمینی حقائق اور میڈیا کی خاموشی
مقامی اردو و انگریزی میڈیا نے اس معاملے کو زیادہ جگہ نہیں دی۔
مفتی صاحب کے بقول:
"نہ مؤثر صحافی ہیں، نہ مضبوط مقامی پلیٹ فارم۔
ہم نے خود ڈیٹا اکٹھا کر کے رجسٹر تیار کیا۔ ہر مدرسے کا ریکارڈ جمعیۃ نے خود مرتب کیا۔”
اس کا مقصد؟
یہ مہم مسلمانوں کی دینی تعلیم پر قدغن لگانے اور مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کی غرض سے چلائی جا رہی ہے۔
اس پوری مہم کو انہوں نے اس انداز پر چلایا کہ گویا تمام مدارس اویدھ (غیرقانونی) ہیں، حالانکہ "اویدھ مدرسہ” کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سرکاری زمین پر مدرسہ تعمیر کیا ہے۔ یہاں کوئی بھی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو سرکاری زمین پر بنا ہو۔ تمام مدارس یا تو لوگوں کی اپنی ذاتی زمین پر بنے ہوئے ہیں، یا اوقاف کی زمین پر قائم ہیں۔ کوئی بھی غیرقانونی کام وہاں نہیں پایا گیا۔ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کی کارروائی کی گئی۔
یہ جو موجودہ دھامی سرکار ہے، یہ پہلی حکومت ہے جس نے اتراکھنڈ کے ماحول کو ہندو-مسلم میں بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل یہاں کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ حکومت کس کی ہے—اتنا پُرامن اور آپسی بھائی چارے کا ماحول یہاں رہتا تھا۔ اس سے پہلے جتنے بھی وزیر اعلیٰ رہے، وہ بھی بی جے پی سے تھے، لیکن ان کے یہاں اس درجے کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت نہیں تھی۔ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی یک طرفہ کارروائی اس صوبے میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سب پہلی مرتبہ اس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے۔
مسلم بچوں اور کمیونٹی پر اثرات!
مدارس کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوا ہے۔ ان کی دینی تعلیم مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے، والدین اضطراب میں مبتلا ہیں کہ اپنے بچوں کو کہاں لے جائیں، کیسے ان کی تعلیم جاری رکھیں۔ چونکہ دینی تعلیم کے متبادل ادارے موجود نہیں، اس لیے یہ کمیونٹی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
احتجاج یا قانونی راستہ؟
صرف ایک مختصر سا احتجاج دہرہ دون میں کیا گیا، مگر مجموعی طور پر مسلمانوں نے احتجاجی راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کے سخت رویے اور منصوبہ بندی تھی۔ زیادہ تر علماء اور تنظیموں نے قانونی راستہ اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا۔
اور لوگ اس کے لئے تیار بھی نہیں تھے حکومت کے نظریے اور ان کے منصوبے کو دیکھتے ہوئے ، لوگوں نے یہی مناسب سمجھا کہ جو جمہوری اور قانونی کارروائی ہو سکتی ہے اسی کو کیا جائے ، سڑکوں پر آنا مناسب نہیں ہے اس لئے کوئی بڑا احتجاج کوئی دھرنا اس سلسلے میں نہیں دیا گیا، کورٹ سے رجوع کرنے ہی کوئی مناسب سمجھا گیا۔
اتراکھنڈ کی حالیہ حکومتی کارروائی نے ریاست کے مذہبی ہم آہنگی والے ماحول کو گہری ضرب پہنچائی ہے۔
رمضان میں کی گئی مدارس کی بندش، بغیر نوٹس کے تالا بندی، اور بعد میں جاری کیے گئے قانونی جواز—یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف رجسٹریشن یا نقشے کا نہیں، بلکہ شناخت، مذہب، اور آئینی حقوق کا ہے۔
