کریڈٹ: Uttarakhand Madarsa Education Board Dehradun
رپورٹ: غالب شمس
اتراکھنڈ حکومت ’’اقلیتی تعلیمی ادارہ جات بل 2025‘‘ کو شفافیت اور تعلیمی اصلاحات کی سمت ایک قدم بتا رہی ہے، مگر اس کے خدوخال کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ عملی صورت میں یہ بل اقلیتی تعلیمی اداروں—خصوصاً مسلم مدارس اور دینی تعلیمی مراکز—کی خودمختاری کو محدود کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلم قیادت اور سماجی تنظیمیں اسے نئی نسل کی تعلیمی سمت اور مذہبی آزادی پر قدغن کے مترادف سمجھ رہی ہیں۔
جنوری 2025 سے اب تک ریاست نے ’’تجاوزات‘‘ اور ’’اصلاحات‘‘ کے نام پر 214 مدارس سیل کیے، اور اب مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو کالعدم قرار دے کر 452 مدارس کو ازسرِ نو رجسٹریشن کے لیے کہا ہے اور غیر رجسٹرڈ مدارس کی بندش کی بات کی—ایسے میں معیاری تعلیم اور احتساب کے حکومتی نعروں پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

بل کا اجمالی جائزہ
اس بل میں کل 21 دفعات ہیں۔ اس کے تحت اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016 اور ’’اتراکھنڈ غیر سرکاری عربی و فارسی مدرسہ تسلیماتی ضوابط 2019‘‘ یکم جولائی 2026 سے منسوخ ہوں گے۔ سکھ، جین، عیسائی، بدھ مت، پارسی اور مسلم برادریوں کے اداروں کو اقلیتی درجہ دیا گیا ہے اور تمام اداروں کے لیے ازسرِ نو رجسٹریشن اور نئی اتھارٹی—Uttarakhand State Authority for Minority Education (USAME)—سے منظوری حاصل کرنا لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔
دفعہ 4(2) کے تحت تمام آزاد مدارس کا رجسٹریشن ضروری ہوگا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ ادارے جو دہائیوں سے درسِ نظامی یا دیوبند کے نصاب پر چلتے آئے ہیں، اپنی آزادانہ حیثیت کھو سکتے ہیں۔ کیا دیوبندی/بریلوی/اہلِ حدیث/شیعہ سب کی نصابی تنوع کو جگہ ملے گی یا یکساں مذہبی نصاب کا دباؤ بڑھے گا؟ کیا وہ اپنا نصاب برقرار رکھ سکیں گے یا ریاستی/بورڈ نصاب کی پابندی لازم ہوگی؟
خود مختار نصاب کا خاتمہ
دفعہ 11(2)(3) کے مطابق 30 دن میں کمیٹی تشکیل پائے گی اور 6 ماہ میں نیا نصاب تیار ہوگا، جسے لازماً UBSE (Uttarakhand Board of School Education) سے منظور کرانا ہوگا۔ سوال یہیں سے اٹھتا ہے: کیا UBSE کے پاس الٰہیات، فقہ، علومِ قرآن و حدیث کی جانچ کے لیے مناسب اہلیت یا مستقل ماہرین موجود ہیں؟ اگر ’’درسِ نظامی‘‘ جیسے نصاب کو بورڈ منظور نہ کرے تو مدارس کی نصابی خودمختاری عملاً ختم ہو جائے گی۔ کیا کم از کم اختیاری (elective) ماڈیولز کی گنجائش رکھی جائے گی تاکہ روایتی علوم اپنی اصل ترکیب کے ساتھ باقی رہ سکیں؟
قانون کی مبہم دفعات
دفعہ 14 میں منظوری کی بارہ لازمی شرائط رکھی گئی ہیں: (1) ادارہ کسی اقلیتی برادری کے زیرِ انتظام ہو؛ (2) UBSE سے وابستگی ہو؛ (3) ادارہ رجسٹرڈ سوسائٹی/ٹرسٹ/کمپنی کے تحت ہو؛ (4) زمین و اثاثے ادارے کے نام پر ہوں؛ (5) مالی لین دین ادارے کے نام سے بینک کھاتے کے ذریعے ہو؛ (6) مینجمنٹ میں اقلیتی برادری کی اکثریت ہو؛ (7) اغراض و مقاصد اقلیتی تعلیم کے لیے واضح ہوں؛ (8) مذہبی جبر نہ ہو؛ (9) اساتذہ UBSE معیار کے مطابق ہوں؛ (10) بورڈ/اتھارٹی کے قواعد کی پابندی ہو؛ (11) فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان نہ پہنچے؛ (12) غیر اقلیتی طلبہ 15 فیصد سے زیادہ نہ ہوں۔ بظاہر یہ ضابطہ جاتی نکات ہیں، مگر کچھ شقیں—مثلاً ’’اغراض و مقاصد‘‘ کی مبہم تشریح، ’’مذہبی جبر‘‘ کی تعریف، اور ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘—عملی نفاذ میں ایسے کھلے ہتھیار بن سکتی ہیں جن سے کسی بھی ادارے پر قدغن لگانا آسان ہو جائے۔ حالیہ برسوں میں تالابندی کی کارروائیاں اور ’’مدرسہ جہاد‘‘ ” تعلیم جہاد” جیسی اصطلاحات انہی خدشات کو تقویت دیتی ہیں۔
مقامی رپورٹس اور عدالتی مداخلت
حکومت کی طرف سے غیر رجسٹریشن، ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی اور فنڈنگ کے سوالات اٹھائے گئے؛ مگر مقامی رپورٹس اور جمعیۃ علماء ہند کی تحقیق بتاتی ہے کہ بیشتر ادارے ذاتی/وقف زمین پر تھے، کسی سرکاری زمین پر تجاوزات ثابت نہ تھے اور بڑی تعداد میں تالابندی بغیر پیشگی نوٹس کے ہوئی۔ اسی پس منظر میں اپریل اور جولائی 2025 میں ہائی کورٹ نے کئی مدارس کی سیلنگ ختم کرنے کے احکام دیے اور ریاست سے وضاحت طلب کی—یوں یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ نئی قانون سازی بھی سخت کارروائیوں کے اسی سلسلے کی توسیع ہے۔

مکاتب کی صورتِ حال
چند ماہ قبل ایک RTI نے یہ حقیقت بھی سامنے رکھی کہ مدرسہ بورڈ سے منظوری صرف مدارس کے لیے ضروری تھی، مکاتب کے لیے نہیں۔ مکاتب محض بنیادی دینی تعلیم کے چھوٹے مراکز ہیں جہاں بچے اسکول کے اوقات سے ہٹ کر آتے ہیں۔ یہی امتیاز مدِنظر رکھتے ہوئے مکاتب کو تالابندی کے زمرے سے باہر رکھا گیا اور تقریباً تیس مکاتب دوبارہ کھولے گئے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ نئے بل کے بعد کیا یہ مکاتب بھی USAME کے تحت لازماً رجسٹرڈ ہوں گے؟ اگر ہاں، تو وہ صبح/شام کی بنیاد پر چلنے والے بنیادی دینی مراکز بھی اسی سخت ضابطہ بندی کے دائرے میں آ جائیں گے جن سے اب تک وہ مستثنیٰ رہے ہیں۔
دیگر اقلیتی برادریوں کی تعلیمی حیثیت
دیگر اقلیتی برادریوں—سکھ، جین، عیسائی، بدھ مت اور پارسی—کے لیے پہلی بار ایک منظم اقلیتی تعلیمی درجہ قائم ہونا بظاہر مثبت دکھائی دیتا ہے؛ مگر مسلم حلقوں میں خدشہ ہے کہ یہ ’’برابری‘‘ دراصل مسلم اداروں کی مخصوص شناخت اور نصابی خودمختاری کو کمزور کرنے کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ جیسے یونیفارم سول کوڈ (UCC) کا نفاذ اتراکھنڈ میں ہوا، اور اب دیگر ریاستوں میں اجراء کی کوشش جاری ہے، ویسے ہی اس بل کے اثرات بھی قومی سطح پر مدرسہ بورڈز کے خاتمے اور سخت ضابطہ بندی کی شکل میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
اہم سوالات اور خدشات
سوالات اسی محور پر سمٹے ہیں: کیا آزاد مدارس درسِ نظامی اور اپنے روایتی نصاب کو برقرار رکھ سکیں گے یا UBSE کی منظوری یافتہ نصاب تک محدود ہو جائیں گے؟ ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ جیسی مبہم شق کہیں مخصوص ہدف بندی کا ذریعہ تو نہیں بنے گی؟ اگر مقصد واقعی شفافیت ہے تو مکالمہ، تربیت اور رہنمائی کے بجائے تالابندی کیوں اوّلین حکمتِ عملی رہی؟ اور سب سے بڑھ کر—RTI کے مطابق مکاتب پر منظوری لازم نہ تھی؛ کیا نیا بل انہیں بھی رجسٹریشن اور اتھارٹی کے مکمل کنٹرول میں لے آئے گا؟
حکومت اسے تاریخی اور اصلاحی قدم بتاتی ہے، لیکن دفعات 4، 11 اور 14 ملا کر دیکھیں تو مدارس کی انتظامی و نصابی آزادی محدود کرنے کے قانونی آلات واضح نظر آتے ہیں۔ یہ بل ہندوستان کے کثیرالثقافتی ڈھانچے کا امتحان بھی ہے۔ بغیر وسیع تر مکالمے اور آئینی جمہوری اقدار کے اسے نافذ کیا گیا تو یہ تعلیمی مساوات اور مذہبی آزادی پر ایک اور کاری ضرب ہوگا۔
پشکر سنگھ دھامی حکومت کی حالیہ کارروائیاں اور 214 مدارس کی سیلنگ کے پس منظر میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ یہ اقدام ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے—’’مدارس کے گرد گھیرا تنگ‘‘ کرنے کی پالیسی۔
