غیر رجسٹرڈ ادارے اپنے نام سے ”مدرسہ“ہٹا دیں، ورنہ کارروائی ہوگی: ہائی کورٹ
دہرادون، 27 اگست۔ ( روایت ڈاٹ کام)
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے غیر رجسٹرڈ مدارس کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے نام سے ’’مدرسہ‘‘ کا لفظ فوراً ہٹائیں اور کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی ہرگز نہ چلائیں، بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ایسے اداروں کو صرف مذہبی امور کی اجازت ہوگی۔

یہ فیصلہ جسٹس منوج کمار تیواری کی سنگل بنچ نے تینتیس سے زائد سیل شدہ مدارس کی عرضیوں پر سماعت کے دوران سنایا۔ عدالت نے کہا کہ اگر یہ ادارے دوبارہ کھلنا چاہتے ہیں تو انہیں متعلقہ اتھارٹی کے سامنے حلف نامہ دینا ہوگا کہ وہ تعلیمی سرگرمی نہیں چلائیں گے۔ بعد ازاں یہ ریاستی حکومت طے کرے گی کہ ان اداروں میں کون سی سرگرمیاں کی جا سکیں گی۔
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی غیر رجسٹرڈ ادارے نے اپنے نام میں ’’مدرسہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو ضلعی انتظامیہ فوری کارروائی کرے۔
مدارس کا مؤقف تھا کہ انہوں نے مدرسہ بورڈ میں رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہے مگر منظوری ابھی باقی ہے۔ اس پر ریاستی حکومت نے بتایا کہ فی الحال ریاست میں صرف 416 مدارس رجسٹرڈ ہیں، جبکہ جو ادارے سیل کیے گئے وہ بورڈ کی اجازت کے بغیر چل رہے تھے اور ان میں بے ضابطگیاں بھی پائی گئیں۔
عرضی گزار مدارس میں مدرسہ ابو بکر صدیقی، مدرسہ جنۃ القرآن اور مدرسہ دارالاسلامیہ شامل ہیں، جنہیں 14 اپریل 2025 کو ضلع انتظامیہ نے سیل کیا تھا۔ ان اداروں کا الزام ہے کہ کارروائی ضابطوں کے مطابق نہیں کی گئی اور ان کے تعلیمی کام کو زبردستی روکا گیا۔
حکومت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ مدارس غیر قانونی طور پر تعلیمی و مذہبی سرگرمیاں چلا رہے تھے اور انہیں انفرادی طور پر یا ’’دیگر‘‘ لوگوں کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔ حکومت نے مزید وضاحت کی کہ رجسٹرڈ مدارس بدستور تعلیمی سرگرمیاں کر رہے ہیں اور انہیں سرکاری امداد بھی مل رہی ہے، جب کہ غیر رجسٹرڈ اداروں کو قانون کے مطابق بند کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ طلبہ کی تعلیم متاثر نہ ہو، اس کے لیے متبادل انتظامات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اب تک ریاست اتراکھنڈ میں مجموعی طور پر 214 مدارس بند کیے جا چکے ہیں۔
