مدارس کا مستقبل اور نیا قانون
غالب شمس
اتراکھنڈ میں حالیہ دنوں مدرسہ بورڈ کے خاتمے اور "اقلیتی تعلیمی بل 2025” کے قیام سے متعلق قانون منظور ہوا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت مدارس کے مستقبل، دینی تعلیم پر اثرات اور آئینی حقوق کی صورتِ حال پر کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ اسی پس منظر میں ہم نے نگینہ (بجنور) کے رہنے والے اور کئی دہائیوں سے دہرادون میں مقیم سماجی کارکن خورشید احمد سے گفتگو کی، جو تعمیراتی شعبے میں طویل عرصہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی فعال رہے ہیں۔ انگریزی میں آپ کی تصنیف بھی موجود ہے، انہوں نے نہ صرف اپنے ذاتی تجربات بیان کیے بلکہ مدارس کے موجودہ بحران اور آئندہ خدشات پر اپنی رائے بھی پیش کی۔

مدرسہ بورڈ کی کیا حیثیت تھی اور اب کیا صورتِ حال ہے؟
مدرسہ بورڈ ایک تو نصاب طے کرتا تھا اور دوسرا امتحانات کراتا تھا۔ اب اعلان ہوا ہے کہ یکم جولائی 2026 سے مدرسہ بورڈ ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد ایک نئی اتھارٹی قائم ہوگی جسے "اقلیتی تعلیمی پرادھیکرن” کہا جا رہا ہے۔
اس نئے پرادھیکرن کی نوعیت کیا ہے؟
یہ ایک پرادھیکرن ( اتھارٹی) ہے، جس کے تحت رجسٹریشن ہوں گے۔ اس میں سکھ، جین، بدھ مت، عیسائی اور پارسی سب شامل ہیں اور انہیں آئین کے مطابق وہی مراعات دی جائیں گی۔ مسلمانوں کو اس پر اعتراض نہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ ان کے ادارے زیادہ تر اسکول ہیں، جب کہ ہمارے ادارے مدارس ہیں جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس قانون کے تحت مذہبی تعلیم پر کیا اثرات ہوں گے؟
یہ آئین کے آرٹیکل 30 کی ایک طرح سے خلاف ورزی ہے۔ جب حکومت مدارس کے نصاب اور طریقۂ تعلیم کو تسلیم ہی نہ کرے تو ظاہر ہے دینی تعلیم براہِ راست متاثر ہوگی۔نیا نصاب نافذ ہوگا تو درسِ نظامی جیسا نصاب ختم کر دیا جائے گا، کیونکہ recognition نہیں ہوگی۔
مسلمانوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟
ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یا تو ہم حکومت کو نمائندگی دیں گے، اور اگر حکومت نہیں مانتی تو پھر عدالت ہی راستہ ہے۔ وہیں جا کر اپنے حقوق کے لیے بات کرنی پڑے گی۔
حکومت نے حال ہی میں کون سے بل پاس کیے ہیں؟
اتراکھنڈ کی حکومت نے 20 تاریخ کو 9 ودھیک پاس کیے۔ ان میں سے دو—ایک مدرسے کا اور دوسرا دھرم انتَرن کا—براہِ راست مسلمانوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن دھرنے پر تھی، مگر اس کے باوجود یہ سب بل بغیر بحث کے پاس کر لیے گئے۔
ان قوانین کے تحت عملی مشکلات کیا ہوں گی؟
"مدارس کے حوالے سے بھی اب یہ ہے کہ ایک بچے کو آپ اسکولی تعلیم چھ سات گھنٹے دیں گے، تو وہ آٹھ دس سال کا بچہ دینی تعلیم کیسے کرے گا؟ اس کا مقصد یہی ہے کہ مدارس کی تعلیم ختم ہو۔
آٹھویں شق یہ ہے کہ مذہبی جبر نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مدرسوں کے اندر سب بچے نماز پڑھتے ہیں، ٹیچرز اور اسٹاف سب نماز پڑھتے ہیں۔ اگر سب نماز پڑھ رہے ہیں تو یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر اس کی مرضی ہے تو وہ پڑھے، ورنہ نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تربیتی نظام، رولز سیٹ کرنا یا قوانین بنانا، یہ سب مذہبی جبر کہلائے گا۔ یعنی اگر کوئی اپنی مرضی سے کرے تو ٹھیک ہے، مگر آپ پابند نہیں کر سکتے۔”
یکساں سول کوڈ (UCC) کا اس پس منظر سے کیا تعلق ہے؟
UCC کے ذریعے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 اور 1939 کو ختم کر دیا گیا۔ اب ایک مشترکہ قانون باقی ہے، مگر سب مذاہب برابر نہیں۔ اسلام کے اپنے احکام ہیں، دوسروں کے اپنے رواج۔ یوں آرٹیکل 25 کے حقوق سلب ہوئے اور اب 26، 29 اور 30 کے حقوق بھی محدود کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟
"اس سلسلے میں مسلمان صرف representation دے سکتے ہیں، اور اگر نہ مانا گیا تو کورٹ میں جانا پڑے گا۔”
آپ حکومت کے مقاصد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شقیں سب مبہم ہیں۔ کل کو اپنی مرضی کی تشریح کر کے سب پر پابندی لگا دیں گے۔ گزشتہ دنوں اصلاحات کے نام پر مدارس بند کیے گئے، وہ بھی بغیر نوٹس کے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ حکومت واقعی خیرخواہی چاہتی ہے۔
