تازہ تحقیق: مسلم تعلیمی ادارے امتیازی رویّوں اور بدنامی کے حصار میں
ترجمہ: عتیق عادل
ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا سہارا ان کے اپنے اقلیتی تعلیمی ادارے ہیں۔ مگر یہ ادارے سرکاری اور ادارہ جاتی سطح پر ہونے والے امتیاز اور سماجی بدنامی کے باعث سخت مشکلات میں ہیں۔ یہ ادارے تعلیم دیتے ہیں، لیکن جب طلبہ مرکزی دھارے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرف جاتے ہیں تو وہ محرومی کے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں پھنس جاتے ہیں۔

یہ نتائج ایک تازہ تحقیقاتی مطالعہ میں سامنے آئے ہیں۔ اس مطالعہ نے واضح کیا ہے کہ حکومتی پالیسی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی اصل وجوہات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عام طور پر اس پسماندگی کو مذہبی قدامت پسندی سے جوڑا جاتا ہے، حالانکہ یہ زیادہ تر سرکاری اور معاشی نظام کی خامیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
اس تحقیق کی مصنفہ ڈاکٹر ہِیم بورکر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبہِ سماجی خدمات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا مضمون پندرہ روزہ میگزین "فرنٹ لائن” کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس میں حکومت کی پالیسی ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، خاص طور پر مسلمانوں اور ان کے تعلیمی اداروں کے تعلق سے۔ یہ ادارے عموماً کمتر سمجھے جاتے ہیں، اور یہی تصور کمیونٹی کے لیے محرومی کا ایک مسلسل سبب بنتا ہے۔
مسلم اقلیتی ادارے طلبہ کو تعلیم اور سماجی و معاشی ترقی کا سہارا فراہم کرتے ہیں۔ مگر انہی پر انحصار طلبہ کے امکانات کو محدود بھی کر دیتا ہے۔ "مسلم اسکول” کا لیبل اعلیٰ تعلیم اور روزگار میں امتیاز کو جنم دیتا ہے، جہاں طلبہ کو کمزور تعلیمی پس منظر رکھنے والا سمجھا جاتا ہے۔
بورکر کا کہنا ہے کہ حالیہ حکومتی پالیسیاں ادارہ جاتی اور معاشی سطح کے امتیاز کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے برعکس، حکومت مسلم کمیونٹی کی مذہبی اور ثقافتی روایات کو پسماندگی کی وجہ قرار دیتی ہے۔ حالانکہ سچر کمیٹی اور دیگر سرکاری رپورٹس بار بار اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالت بدستور پسماندہ ہے۔
آئینِ ہند کا آرٹیکل 30 مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔ یہ ادارے اسی آئینی ضمانت کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ مگر بورکر کا کہنا ہے کہ حکومت اصل مسائل پر توجہ دینے کے بجائے مسلمانوں کے رویّوں کو ہی پسماندگی کی وجہ قرار دیتی ہے۔
مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مسلمان اپنے ہی اداروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ انحصار ان کی تعلیمی پسماندگی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ساتھ ہی بڑھتا ہوا مسلم مخالف بیانیہ اور اکثریتی تعصب ان اداروں کے طلبہ کے خلاف پائے جانے والے داغ کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
بورکر کی تحقیق تعلیم، صنف، اقلیتیں، سماجی اخراج اور نوجوانوں تک محیط ہے۔ ان کی معروف کتاب "Madrasas and the Making of Islamic Womanhood” (2018) آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی تھی۔
مسلم تعلیمی ادارے تعلیم، مذہب اور اقلیتی حقوق کے کئی دائروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہ ادارے طلبہ کو ہندوستان کی معیشت میں شریک ہونے کے لیے علم اور ہنر دیتے ہیں، اور ساتھ ہی انہیں اسلامی ثقافتی اقدار اور مذہبی نظم بھی سکھاتے ہیں۔
تاہم یہ ادارے ہمیشہ شدید مباحث کا مرکز رہے ہیں۔ سیکولر ازم بمقابلہ مذہب، روایت بمقابلہ جدیدیت، شمولیت بمقابلہ محدودیت ،قوم پرستی بمقابلہ فرقہ واریت۔ ان اداروں میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں شناختی بنیاد پر بننے والے گروہوں کو عموماً کمزور سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے، جو سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں، یہ آئینی ضمانت بے حد اہم ہے۔
مسلمان ہندوستان کی سب سے زیادہ تعلیمی طور پر محروم کمیونٹیوں میں شامل ہیں، اس لیے یہ آئینی تحفظ ان کے لیے زندگی کا بڑا سہارا ہے۔ مختلف سرکاری رپورٹس — گوپال سنگھ کمیٹی (1983)، سچر کمیٹی (2006)، اور کنڈو کمیٹی (2014) — ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی شرحِ خواندگی 59.1 فیصد ہے، جو قومی اوسط سے کم ہے۔ تقریباً 15 فیصد بچے کبھی اسکول نہیں گئے۔ اوسط تعلیمی مدت صرف تین سال چار مہینے ہے، جو سب سے کم سطح کو ظاہر کرتی ہے۔
بورکر نے اس تعلیمی تضاد کی نشاندہی کی ہے۔ ایک طرف یہ ادارے شمولیت اور سماجی ترقی کا ذریعہ ہیں، دوسری طرف یہ طلبہ کو محدود مواقع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں میدانی تحقیق کے ذریعے دکھایا کہ یہ ادارے آرٹیکل 30 کی آئینی ضمانت کے تحت قائم ہیں۔ خواہش مند مسلم نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ نئی معیشت میں شامل ہوں اور برابری و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
لیکن یہ ادارے طلبہ کے اختیار اور آزادی کو محدود کر دیتے ہیں، ان کے خواب اور ترقی کے امکانات اس بڑے سیاسی ماحول میں دب جاتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی سماجی و سیاسی محرومی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مسلم تعلیمی ادارے ملک کے تعلیمی نظام میں حاشیے پر دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان کے پاس بنیادی ڈھانچے اور علمی وسائل کی کمی ہے، اس لیے یہ ادارے طلبہ کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کر پاتے جن کے وہ حقدار ہیں۔ بورکر نے بتایا کہ حکومتی پالیسی بظاہر مسلم نوجوانوں کی تعلیمی شمولیت کی بات کرتی ہے، مگر عملی طور پر اعلیٰ اور فنی اداروں تک رسائی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسی دوران مسلم طلبہ کے لیے وظیفوں اور تعلیمی امداد میں مسلسل کمی آئی ہے۔ نتیجتاً نوجوان مسلمان اپنی کمیونٹی کے اداروں اور نیٹ ورکس پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال امتیاز اور محرومی کے دائرے کو مزید مضبوط کر دیتی ہے۔
مرکزی حکومت نے نومبر 2022 میں اقلیتی طلبہ کے لیے دو وظیفے منسوخ کر دیے تھے:
1. پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک پری میٹرک اسکالرشپ
2. ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (MANF)۔
2019 سے 2022 کے درمیان مذہبی اقلیتوں کے لیے چھ تعلیمی اسکیموں پر حکومتی خرچ تقریباً 12.5 فیصد کم ہوا۔ مستفید ہونے والوں کی تعداد میں بھی تقریباً 7 فیصد کمی آئی۔
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو اکثر ان کے مذہبی اور ثقافتی رویّوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جبکہ اصل وجہ معاشی اور سماجی محرومیاں ہیں۔ ان عوامل میں مبینہ مذہبی قدامت پسندی، سخت صنفی اصول، اور مسلم شناخت پر مبنی اداروں جیسے مدارس اور مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے – کو ترجیح دینا شامل سمجھا جاتا ہے۔
بورکر کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے بیانات اور دعووں میں تو برابریِ تعلیم کی بات کرتی ہے اور مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ اداروں میں شامل کرنے کے مواقع دینے کا وعدہ بھی کرتی ہے، لیکن یہ سب عملی اقدامات میں جھلکتا نہیں۔ معیاری اداروں تک مسلم طلبہ کی رسائی بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ وظیفوں اور تعلیمی امداد میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔
بورکر نے نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں کی تعلیمی محرومی کو ختم کرنے کے لیے بامعنی پالیسی صرف اس وقت ممکن ہے جب اصل مسائل کو حل کیا جائے اور کمیونٹی کی مخصوص ضروریات کے مطابق اقدامات کیے جائیں۔ ایک شمولیتی قوم تبھی تعمیر ہو سکتی ہے جب تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کی شناخت کو وقار اور مساوات کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔
نوٹ:
یہ رپورٹ سب سے پہلے 4 ستمبر 2025 کو انگریزی زبان میں Indian Tomorrow میں شائع ہوئی تھی۔ روایت کی ادارتی ٹیم نے اسے قارئین کے لیے مستند اردو قالب میں پیش کیا ہے۔
