سپریم کورٹ پیر کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر عبوری فیصلہ سنائے گی
نئی دہلی ۔ ( روایت نیوز ڈیسک)
سپریم کورٹ پیر (15 ستمبر) کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی دفعات پر حکمِ امتناع کی عرضیوں پر اپنا عبوری فیصلہ سنائے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی۔ آر۔ گوائی اور جسٹس اے۔ جی۔ مسیح پر مشتمل بنچ نے یہ فیصلہ 22 مئی کو محفوظ کیا تھا، جب فریقین کی تین روزہ سماعت مکمل ہوئی تھی۔

یہ مقدمہ ان ری: وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 (1) | رٹ عرضی (سول) نمبر 276/2025 اور منسلک معاملات کے عنوان سے درج ہے۔ عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے 2025 میں جن ترامیم کے ذریعے وقف قانون میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں وہ آئین سے متصادم ہیں۔
عرضی گزاروں میں اے آئی ایم آئی ایم کے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی، دہلی کے عام آدمی پارٹی ایم ایل اے امانت اللہ خان، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، سمستا کیرالہ جمعیت العلماء، انجمن قدری، طیّب خان سلمانی، محمد شافی، ٹی ایم سی کی ایم پی مہوا موئترا، انڈین یونین مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، آر جے ڈی کے منوج کمار جھا، ایس پی کے ضیاء الرحمن، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور ڈی ایم کے شامل ہیں۔
عرضیوں میں جن ترامیم کو چیلنج کیا گیا ہے ان میں سب سے اہم ’’وقف بہ ذریعہ استعمال‘‘ کی دفعہ کا اخراج ہے، جس پر سبھی فریق متفق ہیں۔ اسی طرح مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کو بھی آئین کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور بڑی تبدیلی یہ ہے کہ وقف قائم کرنے کے لیے پانچ سال تک عملی مسلمان رہنے کی شرط رکھی گئی ہے، جس پر سخت اعتراض کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری جائیداد پر قبضے کے تنازعات کو حکومت کے سپرد کرنے اور وقف ایکٹ پر قانونِ تحدیدِ مدت (Limitation Act) کے اطلاق کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
عرضیوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آثارِ قدیمہ کے ادارے (ASI) کے تحت محفوظ یادگاروں پر قائم اوقاف کو کالعدم قرار دینا مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ شیڈولڈ ایریاز میں وقف قائم کرنے کی پابندی، کونسل اور بورڈز میں خواتین کی شمولیت کو صرف دو تک محدود کرنا اور وقف علٰی الاولاد کے تصور کو کمزور کرنا بھی ان ترامیم کے خلاف اہم دلائل میں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’وقف ایکٹ 1995‘‘ کا نام بدل کر "یونفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ” رکھنا اور ٹریبونل کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گنجائش فراہم کرنا بھی زیرِ بحث ہے۔
پس منظر
اپریل میں سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے ترمیمی قانون کی بعض دفعات پر ابتدائی تحفظات ظاہر کیے تھے۔ اس موقع پر مرکزی حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مقدمہ زیرِ سماعت رہنے کے دوران غیر مسلم افراد کو ریاستی وقف بورڈز اور مرکزی وقف کونسل میں نامزد نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی بھی وقف، بشمول ’’وقف بہ ذریعہ استعمال‘‘، خواہ نوٹیفکیشن یا رجسٹریشن کے ذریعے قائم کیا گیا ہو، ڈی نوٹیفائی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی حیثیت یا درجہ بدلا جائے گا۔
