بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر: سترہ سال بعد بھی نہ بھلایا جانے والا المیہ
محمد علم اللہ
کل میرے دوست افروز عالم کا فون آیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بدنام زمانہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو سترہ برس گزر چکے ہیں اور اس پر انہوں نے متعدد مضامین لکھے تھے۔ افسوس کہ وہ واقعہ، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک گہرا زخم بن گیا تھا، وقت کے ساتھ گویا بھلا دیا گیا۔ یہ حادثہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

افروز عالم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اس المیے کی بےباک کوریج کی اور صاف کیا کہ کس طرح ایک ڈرامہ رچا کر کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو نوجوان، جو اعظم گڑھ سے پڑھنے آئے تھے، گولیوں کا شکار بنا دیے گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ سازش کو بے نقاب کرنے میں آپ ہی مرکزی کردار رہے ہیں، اس لیے آپ ہی کو اس پر لکھنا چاہیے۔ مگر وہ بولے: “یقیناً لکھوں گا، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی کچھ لکھیں۔ آپ نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور ٹیرر ایرر کے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی بنائی تھی۔”
فون بند ہوا تو میں دیر تک سوچتا رہا۔ پرانی یادیں جیسے ایک ایک کر کے لوٹ آئیں، اور آنکھوں کے سامنے وہی خوفناک مناظر چلنے لگے، جیسے کوئی فلم دوبارہ پردے پر اتر آئی ہو۔
انیس ستمبر 2008 کی تاریخ تھی۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اور ایک عام سی صبح۔ موسم میں خنکی تھی اور شاید اسی وجہ سے سورج بھی آہستہ آہستہ ابھر رہا تھا۔ اوکھلا میں لوگ حسبِ معمول اپنے کاموں میں لگ چکے تھے۔ ہم جیسے غریب الوطن نوجوان بھی تعلیمی اداروں یا دفاتر کا رخ کر رہے تھے کہ اچانک فائرنگ کی یکے بعد دیگرے آوازوں نے فضا کو لرزا دیا۔ گھبراہٹ اور استعجاب کے عالم میں ہر زبان پر بس ایک سوال تھا: معاملہ کیا ہے؟
ذرا سی دیر میں جو خبرآئی وہ سوگوار، سنسنی خیز، پریشان کن اور دہشت واضطراب پیدا کر دینے والی تھی۔ دو نوجوان جو اپنے سنہرے مستقبل کا خواب سجائے اپنے گھر سنجر پور ضلع اعظم گڑھ سے سیکڑوں میل دورجامعہ ملیہ اسلامیہ سینٹرل یونیورسٹی انڈیا میں پڑھنے آئے تھے ،محافظوں (پولس) کے ذریعہ دہشت گرد قرار دے کر درد ناک انداز میں قتل کر دیے گئے تھے۔
اس کے بعد یوں لگا جیسے دہشت نے اوکھلا کو اپنا مسکن بنا لیا ہو۔ تب سے آج تک یہاں کے لوگ سکون کی نیند نہیں سو پائے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، اس دن میرے فون پر مسلسل کالیں آتی رہیں—والدین، دوست، عزیز، سبھی بے قرار تھے کہ کہیں میں بھی کسی حادثے کا شکار نہ ہو گیا ہوں۔ یہی کیفیت اوکھلا اور اطراف میں رہنے والے ہر طالب علم اور مزدور کی تھی۔
بٹلہ ہاﺅس اور ذاکر نگر میں میڈیا کی گاڑیاں نظر آ رہی تھیں یا پھر پولس والوں کی۔ اس سے قبل میں نے کبھی اس قدر میڈیا والوں اور پولس کی گاڑیوں کا اژدہام اس علاقہ میں نہیں دیکھا تھا۔شام ہوتے ہی پورے علاقہ میں سناٹا پھیل گیا۔ واقعہ کے بعد مسلم نوجوانوں اور خاص طور سے جامعہ کے طلباء میں خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول تھا۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری پوری رات آباد رہنے والے بٹلہ ہاﺅس میں یا تو آوارہ کتے بھونکتے نظر آتے یا پھر وہ پولس کے جوان جو علاقہ میں نقض امن کے نام پر تعینات کئے گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد ڈر کے مارے مائیں اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے نہ دیتی تھیں۔روزانہ کبھی شاہین باغ ،کبھی ابوالفضل انکلیو ،کبھی ذاکر نگر تو کبھی غفار منزل سے مسلم نوجوان پولس کے ذریعہ دہشت گرد بتا کر دبوچ لئے جاتے تھے۔جس کی وجہ سے مسلم طلباء نہ صرف عدم اعتماد کی فضا میں زندگی گذار رہے تھے بلکہ اپنے ہی وطن میں اجنبی اوربے گانہ بھی محسوس کرنے لگ گئے تھے۔ (بد قسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،اور بجائے اس میں کمی آنے کے شدت میں مزید اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ )مجھے یاد آتا ہے اس وقت اوکھلا سمیت سرائے جولینا ،سریتا وہار ،آشرم ،مہارانی باغ اور آس پاس میں رہنے والے ہندو مالک مکان تو کیا بہت سے مسلم مکان مالکوں نے بھی اپنے گھروں سے جامعہ میں زیر تعلیم بچوں کو نکال دیا تھا،اس خوف سے کہ کہیں ان کے گھروں میں رہنے والا کرایہ دار بھی دہشت گرد قرر نہ پاجائے۔ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا۔
یہاں تک کہ وہ دوست اوراحباب بھی جواس حادثہ سے قبل ایک ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر چائے پیتے اور گھنٹوں خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے اپنے ہی ساتھی سے دور دور رہنے لگے تھے۔جن لوگوں نے ہمت جٹا کر روم یا مکان کرایہ پر دیا بھی تھا توان کا رویہ انتہائی جارحانہ بلکہ گستاخانہ ہوتا تھا۔مالک مکان دوست یار سے ملنے کےلئے فلیٹ میں آنے جانے والے ہر طالبعلم کو شک کی نگاہ سے ایسے دیکھتے کہ کہیں آنے والا نوجوان دہشت گرد نہ ہو۔بسا اوقات تومکان مالکان باہرسے ملنے آنے والے مہمان تک کو بھگا دیتے ،یا پھر اتنے سوالات کرتے کہ شریف آدمی خود ہی وہاں رہنا یا آنا پسند نہ کرتا۔
یہ حادثہ عید سے کچھ ہی دن پہلے پیش آیا۔ شاید اسی وجہ سے جامعہ میں پڑھنے والے کئی طلبہ عید پر اپنے گھروں کو گئے تو پھر لوٹ کر واپس نہ آئے۔ ان کے خواب، جو وہ جامعہ آنے سے پہلے دیکھ کر چلے تھے، سب بکھر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم سے محروم ہو گئے۔
اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن نے طلبہ کو حوصلہ دیا، انہیں خوف زدہ نہ ہونے کی تلقین کی اور ہر طرح کے تحفظ اور قانونی چارہ جوئی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ لیکن حالات کچھ اور ہی رخ اختیار کر گئے۔ حادثے کے بعد متعدد نوجوانوں کو پوچھ تاچھ کے نام پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کئی ایک کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا اور بہت سے اس صدمے سے زبان تک نہ کھول سکے۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ لوگ خصوصاً اعظم گڑھ کے بچوں سے میل جول بھی گوارا نہ کرتے تھے۔
ہر چہار جانب شک اور شبہ کا ایک ایسا ہالہ بن گیا تھا اور ایسی بد اعتمادی کی فضا پیدا کر دی گئی تھی کہ اس نے برسوں کی یاری دوستی کو بھی متزلزل کر ڈالا تھا۔اس طرح کے حالات پیدا کرنے میں بالخصوص ہندی اور انگریزی کے بعض میڈیا گھرانے نے خوب خوب کردار نبھایا تھا۔مجھے یاد ہے ایک معروف ٹی وی چینل کے معتبر صحافی نے تو جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا، اس سے چند فاصلہ پر موجود مسجدخلیل اللہ کو ہی آتنگ وادیوں کی پناہ گاہ قرار دے دیا تھا۔شبلی ،فراہی رحمہم اللہ علیہم اورکیفی اعظمی کااعظم گڑھ راتوں رات آتنک گڑھ بنا دیا گیا تھا۔دہلی اور اعظم گڑھ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمان پولس، انتظامیہ اور میڈیا کے اس متعصبانہ رویہ پر افسردہ اور اداس تھے۔اس سال عید کیا منائی گئی، دہلی اور اعظم گڈھ کے مسلمانوں نے اپنے سروں اور بازﺅوں پر کالی پٹیاں باندھ کر”یوم عید “کو ”یوم سیاہ “کے طور پر منایا۔
میرے ذہن میں آج بھی اس خوفناک منظرکی یادیں مر تسم ہیں، جب میں نے پولس والوں کو عاطف اور ساجد کی لاشوں کو بے دردی سے گاڑی میں ڈالتے ہوئے دیکھا تھا اورالیکٹرانک میڈیا کے افراد کیمرہ لئے گاڑی کے پیچھے شکاری کتے کی طرح دوڑتے ہوئے بتا رہے تھے کہ یہ وہی گاڑی ہے جس میں آتنک وادیوں کو لے جایا جا رہا ہے ،اور بلیک شیشے سے آتنگ وادی کا جوتا نظر آ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے کئی رات تک نیند نہیں آئی تھی۔ مجھے کھانا کھاتے ،اٹھتے بیٹھتے وہی خوفناک منظر دکھائی دیتا تھا۔ان دنوں میں ہندوستان ایکسپریس میں کام کرتا تھا اس حادثہ کا میرے ذہن پر اسقدر اثر ہوا تھا کہ اس دن میں چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ سکا تھا۔اس دن کے سانحہ کی جو رپورٹ واقعہ کے اگلے دن ’ہندوستان ایکسپریس‘میں شائع ہوئی،اس کی سرخی’جامعہ نگرمیں انکاؤنٹر، مگرفرضی یااصلی؟‘قائم کی گئی۔اس وقت کئی لوگوں نے ایکسپریس میں چھپی اس رپورٹ پر اعتراض بھی ظاہر کیا لیکن بعد کے دنوں میں این ایچ آر سی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سمیت کئی حقائق نے اس کو حرف بحرف ثابت کر دیا۔
آج اس سانحہ کے 17سال مکمل چکے ہیں لیکن جب کبھی اس وقت کو یاد کرتا ہوں تومضطرب ہو جاتا ہوں اور بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔پولس انکاﺅنٹر کو عاطف و ساجد کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے بڑے لیڈران ،حقوق انسانی کے کارکنا ن ،وکلاء،صحافی اوربڑی تعداد میں علاقہ کے افراد فرضی گردانتے رہے ہیں۔ پولس کی کاروائی پر اول دن ہی ان افرادنے سوالات کھڑے کر دئے تھے اور پولس کی کہانی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جوڈیشیل انکوائری کی مانگ کی تھی لیکن طویل عرصہ گذرجانے کے باوجودپولس کی اس کاروائی اور اس کے ذریعہ گڑھی گئی کہانیوں پر اٹھائے گئے سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔ حالانکہ اس دوران شور، ہنگامہ ،احتجاج ،مظاہرہ سب کچھ ہوا لیکن” کون سنتا ہے نقار خانہ میں طوطی کی آواز“ اب تو مختلف ذرائع سے اس مبینہ انکاونٹر کے متعلق بہت سارے راز ہائے سر بستہ بھی بے نقاب ہو چکے ہیں اور اس واقعہ کے متعلق نام نہاد قومی پریس کے ذریعہ ابتدا قائم کی گئی رائے میں بھی تبدیلی آئی ہے لیکن عملاً سارے منظر نامے میں اب بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔الٹے اس واقعہ کی آزادانہ تحقیق کئے بغیرمہلوک انسپکٹر موہن چند شرما کو’ اشوک چکر ‘ایوارڈ دے کر انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا، جبکہ دوسری جانب شہید ہونے والے طلباء کی ماﺅں کی آنکھیں اپنے لال کی یاد میں رو رو کر خشک ہو گئیں لیکن کوئی سرکاری ذمہ دار اشک شوئی کےلئے نہیں پہنچا۔
انکاؤنٹر میں مارے گئے عاطف امین کے والد اور ان کے بھائی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب گھر میں صرف ان کی ماں ہیں۔ وہیں اسی انکاؤنٹر میں مارے گئے محمد ساجد عرف چھوٹا ساجد کے والد بھی صدمے میں چل بسے ہیں۔ محمد سلمان کے دادا، اسی طرح عارف بدر، محمد عارض خان اور ابو راشد کے والد بھی صدمے میں اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ جتنے بھی بچے جیل میں بند ہیں ان میں زیادہ تر کے گھروں میں کوئی نہ کوئی صدمے کا شکار ہو کر چل بسا ہے۔ وہیں جیل کی سلاخوں میں قید شہزاد بھی دم توڑ چکا ہے۔
خاص طور پر حکومت نے اس واقعہ سے متعلق اول دن سے جو نظریہ اختیار کیا تھا وہ متعدد حقائق کے انکشاف کے بعد بھی تا ہنوز قائم ہے۔اس سانحہ کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ آج بھی جاری ہے لیکن نہ جانے کیا خوف ہے کہ پولس ،انتظامیہ ، مرکزی حکومت حتی کہ وزیر اعظم تک اس معاملہ میں مداخلت کرنا اور اس انکاؤنٹر کی حقیقی سچائی کو سامنے لانا کیوں نہیں چاہتے۔ اب توکئی ایسے شواہد سامنے آچکے ہیں جن سے اس انکاؤنٹرکا فرضی ہونا تقریباً ثابت ہو چکا ہے لیکن پھر بھی بٹلہ انکاونٹر کی تحقیقات کا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا رہاہے کہ اس سے پولس کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
ہمارے سیاستدانوں نے بھی اس معاملہ میں خوب خوب روٹیاں سینکیں۔ اس معاملہ پر اپنے مفادات کی خاطر علاقائی لیڈران سے لے کر مرکزی ذامہ داران تک سبھوں نے شہید طالب علموں کی لاشوں پر سیاست کی اور مگر مچھ کے آنسو بھی بہائے اوراپنا سیاسی مقصد حاصل کیا اور وقت آنے پر” دیتے ہیں دھوکا بازیگر کھلا “کے مانند اسٹیج سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بعضوں نے حقائق کو ہی توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی توبعض اعظم گڑھ میں جاکر کف افسوس مل آئے۔
اب حالات کیا رخ اختیارکریں گے، اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن مستقبل قریب میں بھی اس انکاؤنٹرکی انکوائری کے امکانات ظاہر نہیں ہوتے۔ ہندوستان میں انصاف کے مسلسل مہنگے ہونے سے یہ امر اب اور نا ممکن سا لگ رہا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ متاثرہ افراد میں زیادہ تر معاشی لحاظ سے کمزور لوگ ہیں۔بھلا ہم مسلمانوں کو کیسے بتائیں کہ قیادتیں سازگار حالات میں برپا نہیں ہوتی ہیں بلکہ حالات کے تھپیڑے ان میں نکھار لاتے اورنہیں صدا بہار بناتے ہیں۔
ہمارا یہ المیہ ہی ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی ہمیں کوئی پائدار سیاسی ،سماجی یا دینی قیادت ملتی نظر نہیں آتی۔ لے دے کر کچھ سیاسی یا نیم سیاسی سماجی لوگ ہیں لیکن ان کی حیثیت بھی ”مٹی میں مادھو “کی سی ہے۔کوئی ان کو استعمال کرتا ہے تو کوئی کسی کیلئے بہ رضا و خوشی استعمال ہو جاتے ہیں۔ 19ستمبر 2008 کا وہ دن اور آج کا دن 19ستمبر 2025۔ حالات کتنے بدل گئے ،اس وقت جامعہ نگر میں چند نام نہاد دہشت گردوں کے نام لئے جا رہے تھے جن کو گرفتار یا فرضی انکاؤنٹر میں مار کر ان کی زندگی تباہ کر نے کی باتیں کی جا رہی تھیں ،اور آج پوری کالونی کو ہی غیر قانونی بتا کر اسے تباہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور ان کو بروئے کار لایا جا رہا ہے ،سازشی عناصر متحرک ہیں اور ہم خواب غفلت میں شاید اپنی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہیں۔
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے سترہ برس بعد بھی اس کی داستان ادھوری ہے، جہاں 2023 میں دہلی ہائی کورٹ نے عریز خان کی سزا موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، حالانکہ اس کی مجرمیت کو تسلیم کیا، جبکہ شاہزاد احمد جیسی دیگر شخصیات اب بھی جیل کی سلاخوں میں قید ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، جیسے راشٹریہ علما کونسل، جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کرتی رہیں، مگر مرکزی حکومت اور پولیس کی طرف سے اسے مسترد کر دیا جاتا ہے، بہانہ یہ کہ "یہ پولیس کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گا”۔ 2025 تک، مئی میں سپریم کورٹ نے بٹلہ ہاؤس علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کی ڈھہائی کا حکم دیا، جس پر جون میں دہلی ہائی کورٹ نے متعدد پٹیشنز پر سٹیٹس کو، یعنی موجودہ حالت برقرار رکھنے کا حکم دیا اور 10 جولائی تک ڈیمولیشن روک دی، جبکہ جولائی میں پارلیمنٹ میں گھمبیر بحث ہوئی جہاں ہوم منسٹر امت شاہ نے اسے سابقہ حکومت کی تنقید کا حوالہ دے کر سیاسی ہتھیار بنایا۔
یہاں پر بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو آپ محض استعارہ کے طور پر رکھیں اور آزادی کے بعد سے مستقل حادثات، مسلمانوں کے خلاف سازش، فسادات اور ظلم و زیادتی کی فہرست بنائیں، ہر سانحہ کے بعد بننے والی تنظیم، پارٹی اور گروپ کی تاریخ دیکھیں تو آپ یہی دیکھیں گے کہ چند لوگ سرگرم رہتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔
یہ بھولنے اور سرد خانے میں چیزوں کو ڈال دینے کی ہماری جو روایت ہے دراصل وہی ہمارے لیے جان کاہ ہے لیکن افسوس ایک سرا پکڑتے ہیں تو دوسرا چھوڑ دیتے ہیں، اور آخرکار دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، نتیجہ محرومی ہاتھ آتی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے اور ہم بار بار کہاں مات کھا رہے ہیں۔
