مدھیہ پردیش کے مدارس میں تبدیلیٔ مذہب کے الزامات، این ایچ آر سی نے رپورٹ طلب کی
روایت نیوز ڈیسک | 29 ستمبر 2025
قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے مدھیہ پردیش کے کچھ مدارس سے متعلق تبدیلیٔ مذہب کے الزامات پر ریاستی محکمۂ تعلیم سے رپورٹ مانگی ہے۔ کمیشن نے ہدایت دی ہے کہ معاملے کی جانچ کی جائے اور پندرہ دن کے اندر کارروائی رپورٹ پیش کی جائے۔

یہ شکایت 26 ستمبر کو کمیشن کو بھیجی گئی تھی۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے مختلف اضلاع میں 27 غیر منظور شدہ مدارس میں 556 ہندو بچوں کو داخل کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ ان اداروں کا مقصد بچوں کو اسلام قبول کرانا ہے۔
شکایت گزار کے مطابق یہ مدارس مورینا، اسلام پورہ، زورا، پورسا، امباہ، کیلارس، سمبل گڑھ اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں۔ شکایت میں یہ بھی کہا گیا کہ ان اداروں میں قرآن و حدیث پڑھائی جا رہی ہے جبکہ اس کی کوئی سرکاری منظوری موجود نہیں۔ اس عمل کو جووینائل جسٹس ایکٹ 2015، آئین کے آرٹیکل 28(3) اور مدھیہ پردیش حکومت کے 16 اگست 2024 کے حکم نامے کی خلاف ورزی بتایا گیا ہے، جس میں غیر مسلم بچوں کے مدارس میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
شکایت میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ معاملے میں غیر قانونی فنڈنگ یا بعض مشتبہ روابط بھی ہو سکتے ہیں۔ شکایت گزار نے ایف آئی آر درج کرنے، بچوں کو محفوظ کرنے، مدرسہ چلانے والوں پر کارروائی اور اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
این ایچ آر سی کی بینچ، جس کی صدارت پریانک کنونگو کر رہے ہیں، نے شکایت پر نوٹس لیتے ہوئے محکمۂ اسکولی تعلیم کے پرنسپل سکریٹری کو ہدایت دی ہے کہ الزامات کی تفصیلی جانچ کرائی جائے۔
کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21-اے کے تحت ریاست پر ذمہ داری ہے کہ تمام بچوں کا داخلہ اسکولوں میں کرائے۔ تاہم مدارس اسکول کی تعریف میں شامل نہیں اور وہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے دائرے میں بھی نہیں آتے۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندو بچوں کو وہاں کس بنیاد پر داخل کیا گیا۔
کمیشن نے محکمۂ تعلیم کو حکم دیا ہے کہ کارروائی رپورٹ براہِ راست ای میل کے ذریعے بھی کمیشن کو بھیجی جائے۔
