دیوبند میں طالبان وزیرِ خارجہ ۔ جب سفارت نے سیاست کا چہرہ بے نقاب کیا
غالب شمس
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اس وقت ہندوستان کے آٹھ روزہ سفارتی دورے پر ہیں۔
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ کسی افغان اعلیٰ سطحی وفد کا پہلا باضابطہ دورہ ہے۔
نئی دہلی کے لیے یہ موقع اہم سمجھا جا رہا ہے، جہاں افغانستان میں سرمایہ کاری، سلامتی اور سفارتی امکانات پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔
اسی دورے کے دوران ہفتہ، 11 اکتوبر 2025 کو امیر خان متقی دارالعلوم دیوبند پہنچے، تاریخی گول لائبریری میں ان کا استقبال کیا گیا۔ دارالعلوم کے اساتذہ اور طلبہ موجود تھے۔ خیرسگالی کے کلمات کہے گئے۔ طلبہ قطار در قطار کھڑے ہوکر پھول برسارہے تھے۔ فضا میں خوشی، عقیدت اور فخر کی ملی جلی کیفیت تھی ، امیر متقی کو دار العلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی نے اجازت حدیث دی، اور دعا کی، وہ جو موجود تھے، اپنی موجودگی پر نازاں، اور جو دور تھے، اس تاریخ ساز لمحے سے محرومی پر مغموم۔

اصولی طور پر یہ ایک معمول کی سفارتی روایت ہے۔ غیر ملکی رہنما جب میزبان ملک کا دورہ کرتے ہیں تو اکثر وہاں کے نمایاں تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی مختلف سربراہان اور وزرا آئی آئی ٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی جیسے اداروں میں آتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود دیوبند میں متقی کی آمد پر جو بحث اٹھی، اس نے سفارت کو پس منظر اور مذہب کو موضوع بنا دیا۔
اس ردعمل میں سفارتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ایک چھپی ہوئی اسلاموفوبیا کی پرت بھی نظر آئی گویا مذہبی ادارے سے جڑی ہر خبر کو مذہبی شناخت کی عینک سے ہی دیکھا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوبند آنے سے چند گھنٹے پہلے متقی دہلی کے وِویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن میں لیکچر دے چکے تھے، وہی تھنک ٹینک جس کے فکری پس منظر پر خود “دینی مدارس” اکثر میڈیا تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ مسئلہ دراصل فیصلہ ساز طبقے کے طرزِ فکر کا ہے ، جہاں مذہب، سیاست اور سفارت کے درمیان توازن بگڑ چکا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے بقول، “افغانستان سے ہمارا تعلق صرف علمی اور روحانی نہیں، صدیوں پرانے تہذیبی و ثقافتی رشتوں پر بھی قائم ہے۔” جنگِ آزادی کے زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین شیخُ الہند مولانا محمود حسنؒ کی رہنمائی میں افغانستان کی سرزمین پر ایک عارضی حکومت قائم ہوئی؛ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ صدر، مولانا برکت اللہ بھوپالی وزیرِ اعظم اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ وزیرِ خارجہ تھے۔ یہی نسبت حالیہ دورے میں بھی نمایاں رہی: متقی نے دیوبند کو اپنا “علمی و روحانی مرکز” کہا۔ ان کی دینی تعلیم پاکستان کے دارالعلوم حقانیہ سے ہے، جسے مولانا عبد الحقؒ نے قائم کیا تھا اور یہ سلسلہ فکری طور پر حسین احمد مدنیؒ اور دیوبند سے جڑتا ہے۔ یوں اس دورے میں سفارت بھی تھی اور ایک فکری “الما میٹر” سے لوٹ کر جڑنے کا احساس بھی۔
1991ء کے بعد کسی افغان اعلیٰ سطحی وفد کی یہ پہلی سرکاری آمد ہے اور اس کے پروگرام میں دیوبند کا شامل ہونا خود ایک اشارہ ہے کہ تعلیمی اور مذہبی ادارے خطے کے سافٹ پاور نیٹ ورک میں جگہ رکھتے ہیں۔ بھارت کے وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں کابل میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے، مولانا مدنی کی امید کے مطابق اگر کابل میں بھارتی سفارت کاری کی سرگرم بحالی ہوتی ہے تو تعلیمی تبادلوں اور تجارت میں عملی راستے کھل سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود فوری داخلی سیاسی تبدیلی کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس ملاقات کو ماضی کے رشتوں کے تسلسل اور تعلقات کی نئی شروعات کے اشارے کے طور پر دیکھا جائے۔
افغانستان سے جڑی یہ تازہ پیش رفت داخلی سیاست کی روشنی میں بھی اہم ہے کہ 2021ء میں طالبان پر رائے دینے والے مسلم نوجوانوں یا علما کے خلاف کارروائیوں کی خبریں آئیں، اور آج اسی طالبان حکومت کے وزیر کو سہارنپور میں ریاستی سیکورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ ایک ہی ملک کے دو رخ کیسے ہو سکتے ہیں ، اندر مسلمانوں پر دباؤ، اور باہر انھی کے نمائندے کے ساتھ خوش اخلاقی۔ مدارس پر شک کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
مجھے یاد ہے، ہمارے ایک درسی ساتھی محض تجسس سے طالبان کے بارے میں گوگل پر پڑھا کرتے تھے۔
چند دن بعد خفیہ ایجنسی کے لوگ انہیں دھمکانے پہنچ گئے۔
اس وقت ان کے بارے میں بولنا تو دور، پڑھنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔
لیکن دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان کے دوسرے مدارس اس ملک کی علمی اور تہذیبی شناخت ہیں۔
یہ ادارے صدیوں سے قوم کی فکری سمت اور اخلاقی بنیادوں کے محافظ رہے ہیں، انہیں شک کی نگاہ سے دیکھنا دراصل اپنے ماضی اور اپنی جڑوں سے بدگمانی کے مترادف ہے۔
کسی ملک کی ساکھ اس کے علمی اداروں سے بنتی ہے، اور ان اداروں کا احترام ہی اس کے اعتماد کی علامت ہوتا ہے۔
اگر ہندوستانی مقتدرہ اپنے مدرسوں کو خوف یا سیاست کے سایے میں رکھیں گے تو اپنا اعتماد اور اپنی تہذیب کمزور کریں گے۔ اگر مقتدرہ اندر اور باہر کے رویوں میں توازن پیدا نہ کر سکے تو کوئی بھی سفارت دیرپا نہیں رہ سکتی۔
