بچوں کے حقوق یا سیاسی ایجنڈا: مدارس کے خلاف این سی پی سی آر کی پالیسیوں کا ایک تنقیدی جائزہ
جنید احمد حمدانی
ہندوستان میں قومی کمیشن برائے تحفّظ حقوق اطفال (NCPCR) کی جانب سے مدارس کے نظام کے خلاف اختیار کی گئی پالیسیوں اور کارروائیوں نے ایک وسیع بحث چھیڑ دی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا یہ اقدامات واقعی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں، جیسا کہ کمیشن کا دعویٰ ہے، یا یہ ایک وسیع تر سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو ایک مخصوص کمیونٹی کے تعلیمی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس رپورٹ کا مقصد این سی پی سی آر کی پالیسیوں کا گہرائی سے تجزیہ کرنا، ان کے پیچھے موجود قانونی و آئینی دلائل کا جائزہ لینا، اور ان کا متعلقہ عدالتی فیصلوں اور تاریخی دستاویزات سے موازنہ کرنا ہے۔

این سی پی سی آر کا قیام اور مینڈیٹ
این سی پی سی آر ایک قانونی ادارہ ہے جسے کمیشن برائے تحفّظ حقوق اطفال (CPCR) ایکٹ، 2005 کی دفعہ 3 کے تحت قائم کیا گیا۔ اس کا بنیادی مینڈیٹ ملک میں بچوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ کمیشن جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (POCSO) ایکٹ 2012، جووینائل جسٹس (بچوں کی نگہداشت و تحفظ) ایکٹ 2015، اور مفت و لازمی تعلیم کا حق (RTE) ایکٹ 2009 کے نفاذ کی نگرانی بھی کرتا ہے۔
اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ بچوں کے حقوق سے متعلق تمام قوانین، پالیسیاں اور انتظامی میکانزم آئین ہند اور بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق ہوں۔
دوسری جانب، ہندوستان میں مدارس کا ایک طویل اور تاریخی کردار رہا ہے۔ ان اداروں میں زیر تعلیم 90% سے زائد طلبا غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ادارے نہ صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں بلکہ کئی دہائیوں سے مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم سماجی اور ثقافتی مرکز بھی رکھتے ہیں۔
تنازعہ کا پس منظر
تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب این سی پی سی آر نے اپنی ایک رپورٹ، "عقیدہ کے محافظ یا حق تلفی کرنے والے: بچوں کے آئینی حقوق بمقابلہ مدارس” کے عنوان سے جاری کی جس میں مدارس کو بچوں کے تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا اور ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا گیا۔
اس کے بعد کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت نامے بھیجے۔ جس کے نتیجے میں اتر پردیش اور اترا کھنڈ کی حکومتوں نے سروے شروع کیا۔
بظاہر مقصد "غیر تسلیم شدہ مدارس” کی تفصیلات جمع کرنا بتایا گیا، لیکن دراصل ان کی تفتیش اور تالا بندی کی راہ ہموار کی گئی۔ این سی پی سی آر کا دائرہ کار بظاہر بچوں کے ہر طرح کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، مگر اس کی توجہ کا محور ایک خاص طبقے کے تعلیمی ادارے ہیں، جو اس کے مینڈیٹ کو ایک مخصوص فریم ورک میں استعمال کرنے کا اشارہ دیتی ہے۔
این سی پی سی آر کا موقف اور الزامات
کمیشن نے مدارس کے تعلیمی معیار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مدارس آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کی دفعات کی پیروی نہیں کرتے، اور ان میں دی جانے والی تعلیم جامع نہیں ہے۔ کمیشن نے 2024 میں سپریم کورٹ میں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ مدارس بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کرنے کے لیے مناسب جگہیں نہیں ہیں، اور یہ الزام لگایا کہ ان کے نصاب میں ایسی کتابیں شامل ہیں جو "اسلام کی بالادستی” کی تعلیم دیتی ہیں اور سیکولر اصولوں سے متصادم ہیں۔
این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک کاننگو نے یہ متنازع بیان بھی دیا کہ مدارس پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو تقسیم ہند کے دوران پورے ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ “مدارس میں بچوں کو مخصوص نظریے کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہے۔” یہ بیانات کمیشن کے غیر جانب دارانہ کردار پر گہرے سوال کھڑے کرتے ہیں۔
اقلیتی تعلیمی حقوق کا قانونی پس منظر
آئینِ ہند کا آرٹیکل 29 شہریوں کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت محفوظ رکھنے کا حق دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 30 لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے انتظام کا حق دیتا ہے۔
مزید یہ کہ آر ٹی ای ایکٹ 2009 کی دفعہ 1 (4) اور 1(5) میں مدارس، ویدک پاٹھ شالاؤں اور بنیادی طور پہ مذہبی لہٰذا، جب قانون خود استثنا دیتا ہے تو این سی پی سی آر کے “قانون کی عدم تعمیل” کے دعوے اور کارروائیاں قانونی طور پر غیر منطقی معلوم ہوتی ہیں۔
جمیعت علماء ہند نے این سی پی سی آر کی سفارشات کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی، اور ان کو اقلیتی برادری کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، جمیعت کا موقف تھا کہ کمیشن کے پاس ایسی ہدایات جاری کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے، اور یہ اقدامات اقلیتوں کے آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہیں۔
جمیعت کی نمائندہ سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے کارروائی کو غیر منصفانہ قرار دیا اور ہزاروں طلبہ کے متاثر ہونے کا اندیشہ جتایا۔ سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت میں این سی پی سی آر کی سفارشات پر عمل در آمد پر روک (stay) لگادی ہے، اور کہا کہ “ریاست تعلیمی معیار کا نظم کر سکتی ہے، مگر اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔”
حاصل کلام
سچر کمیٹی کی 2006 کی رپورٹ کے مطابق مسلم کی پسماندگی کی اصل وجہ غربت، تعلیمی اداروں تک محدود رسائی، اور حکومت کی طرف سے مناسب توجہ کی کمی ہے۔
ایسے میں مدارس وہ واحد ذریعہ ہیں جو محدود وسائل کے باوجود مسلم معاشرے کی تعلیمی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ریاستی ادارے ان اسباب کو دور کرنے کے بجائے انہی مدارس کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو نہ صرف قابلِ اعتراض بلکہ ایک منفی اور فرقہ وارانہ رویہ بھی معلوم ہوتا ہے۔
سرکاری اداروں کو حقوق اطفال کی حقیقی فکر کرنی چاہیے، اپنے بیانات اور کارروائیوں میں نظریاتی و سیاسی غیرجانبداری کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ پوری قوم مساوات کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
این سی پی سی آر جیسے ادارے اسی وقت اپنا وقار برقرار رکھ سکتے ہیں جب وہ سیاسی غیر جانب داری اور تعلیمی انصاف کو ترجیح دیں، نہ کہ کسی خاص نظریاتی دباؤ کے تحت فیصلے کریں۔ یہی رویہ ملک کے آئینی توازن، سماجی ہم آہنگی اور حقیقی تعلیمی ترقی کی ضمانت ہے۔
