مدرسہ، میڈیا اور اعتماد کی شکست
نور اللہ
گزشتہ چند برسوں میں مین اسٹریم میڈیا میں مدرسے کی تصویر بدل گئی ہے۔ پہلے یہ ایک عام دینی و تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب اسے بحثوں اور خبروں میں اکثر شک اور بدگمانی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی وی مباحثوں میں مدرسہ کا نام آتے ہی گفتگو کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ سوال تحقیق کے بجائے الزام کے انداز میں اٹھتے ہیں، اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ ادارے معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہوں۔ دراصل یہ ایک منصوبہ بند بیانیہ سازی کا عمل ہے۔

سب سے پہلے چند مخصوص الزامات بار بار دہرائے جاتے ہیں، جیسے کہ مدارس میں ’’جہاد‘‘ سکھایا جاتا ہے، یہاں ’’تبدیلی مذہب‘‘ کرائی جاتی ہے،یہاں شدت پسندی اور کٹر پنتھی کی تعلیم ہوتی ہے اور یہاں سے ’’ڈاکٹر اور انجینئر پیدا نہیں ہوتے‘‘۔ یہ الزامات ثبوت سے خالی ہوتے ہیں، لیکن مسلسل تکرار کے بعد شکوک کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر ایک عمومی تاثر کے طور پر رائے عامہ میں جگہ بنا لیتے ہیں۔
اسی بیانیے کے تحت آسام کے وزیراعلیٰ ہمنت بسوا شرما کا یہ بیان میڈیا میں نمایاں طور پر دکھایا گیا کہ “مدرسہ لفظ ہی ختم ہونا چاہیے، کیونکہ جب تک یہ نام رہے گا یہاں سے ڈاکٹر اور انجینئر نہیں نکلیں گے۔” اسی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چھ سو مدارس بند کر چکے ہیں اور مزید کریں گے۔ اس بیان کو میڈیا نے تنقیدی پرکھ کے بغیر ایک اصلاحی اقدام کے طور پر پیش کیا۔
یوپی میں 2022 کے دوران مدارس کے سروے کی میڈیا کوریج بھی اسی نقطہ نظر کی مثال ہے۔ رپورٹر دیہی مدارس میں داخل ہوئے، کم سن طلبہ سے اعلیٰ سرکاری عہدوں کے نام پوچھے گئے، اور جب بچے جواب نہ دے سکے تو اس کمی کو ’’تعلیمی ناکامی‘‘ نہیں بلکہ ’’قومی شعور سے محرومی‘‘ کا ثبوت بنا کر پیش کیا گیا۔ حالاں کہ یہی صورتحال سرکاری پرائمری اسکولوں میں زیادہ شدت سے موجود ہے، لیکن وہاں کی حالت خبر نہیں بنتی کیونکہ وہاں سے کوئی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت نہیں۔
اسی ماحول میں بی جے پی کے رکن پارلیمان ساکشی مہاراج کا 2014 کا بیان بھی بار بار دہرایا گیا کہ “مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں، یہاں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔” یہ الزام نہ کسی ثبوت پر مبنی تھا اور نہ ہی آج تک کسی مدرسے سے ایسی سرگرمی کا کوئی ثبوت برآمد ہوا، لیکن میڈیا نے اسے ایسے دہرایا گویا یہ کوئی مستند فیصلہ ہو۔
اتراکھنڈ میں جنوری 2025 سے اب تک 216 مدارس سیل کیے جا چکے ہیں۔ سرکاری دستاویزات میں الزامات عمومی اور غیر واضح ہیں، مگر میڈیا کی زبان ان اشاروں کو الزام کی سطح تک بلند کرتی ہے۔ یہی بیانیہ آسام میں 2023 سے 2025 کے دوران چلنے والی انخلا مہم میں بھی کارفرما تھا، جس میں 11,183 خاندان بے گھر ہوئے اور 48 مساجد، 75 مکاتب، 11 مدارس، 22 عیدگاہیں اور 15 قبرستان منہدم یا متاثر ہوئے۔ یہ عملی نتائج بتاتے ہیں کہ مسئلہ زمین کا نہیں، تہذیبی اور شناختی یادداشت کو کمزور کرنے کا ہے۔
میڈیا اس پورے عمل میں ایک خاموش مگر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کیمرہ مدرسے کے ماحول کو اجنبی بنا کر دکھاتا ہے، استاد کے لباس کو غیر معمولی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور مباحثوں میں اختلاف رکھنے والی آواز کو کمزور رکھا جاتا ہے۔ اس طرح تصویر حقیقت کی سامنے نہیں آتی ہے، پیشگی تیار کردہ تاثر کی بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدارس ان لاکھوں بچوں کی تعلیم اور تربیت کا ذریعہ ہیں جن کے خاندان سرکاری یا نجی اسکولوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ یہاں رہائش، خوراک، کتابیں، معلم اور نگرانی سب ایک ساتھ فراہم ہوتی ہیں۔ مدارس کردار، سماجی تربیت اور معاشرتی تعلق کی بنیاد بھی مضبوط کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں اسکول عملاً غیر فعال ہیں، وہاں خواندگی کا پہلا دروازہ یہی مدارس ہیں۔
1857 ء کی جدوجہد کے بعد جب علما نے قیادت کی تو انگریزوں نے یہی ادارے ’’بغاوت کے مراکز‘‘ قرار دیے تھے۔ زبان بدل گئی ہے، مگر نشانہ وہی ہے۔
لہٰذا جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مدارس پر تنقید تعلیمی بنیادوں پر کم، اور سیاسی بیانیہ سازی کے تحت زیادہ کی جا رہی ہے۔ تصویر حقیقت سے زیادہ میڈیا کی پیشکش سے بنتی ہے۔ ریاست اگر واقعی تعلیمی اصلاح اور قومی یکجہتی میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے مدارس کے وجود کو مسئلے کے طور پر دیکھنے کے بجائے، انہیں ایک موجود تعلیمی سرمایہ اور سماجی ادارہ سمجھ کر ان کے ساتھ مکالمہ اور تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اختلاف یا اندیشہ دور کرنے کا راستہ تحقیق، گفتگو اور عملی بہتری ہے ۔ نہ کہ تصویر بگاڑ کر رائے عامہ کو مسخ کرنا۔
