روایت نیوز ڈیسک، جودھپور۔
راجستھان کے مختلف اضلاع میں اینٹی ٹیرر اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے دہشت فنڈنگ کے شبہے میں پانچ افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں جودھپور کے عربیہ مدرسہ کے مولوی ایوب اور سنچور کے محرم چوک مدرسہ کے مولوی عثمان بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی کے بعد مدارس کے اساتذہ اور مقامی برادری میں تشویش کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق، اے ٹی ایس نے مولوی ایوب کے گھر پر چھاپہ مار کر کتابیں، کاغذات اور موبائل فون ضبط کیے۔ ان کا کمرہ سیل کر دیا گیا۔ ایوب پچھلے تیرہ برس سے اسی مدرسے میں اردو اور دینیات کے استاد تھے۔ محلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام، غیرسیاسی اور شریف مزاج شخص تھے جو زیادہ تر وقت تدریس میں گزارتے تھے۔
بھاسکر انگلش کی رپورٹ کے مطابق، ایوب کی اہلیہ سعیدہ نے بتایا کہ ٹیم رات گئے گھر پہنچی۔ "پولیس کے لوگ عام کپڑوں میں آئے، ساری رات پوچھ گچھ کرتے رہے اور صبح شوہر کو ساتھ لے گئے۔” ان کے مطابق، "انہوں نے کہا کہ صرف تفتیش کے لیے لے جا رہے ہیں۔” مدرسے کے اساتذہ نے کہا کہ انہیں کسی مشکوک سرگرمی کی اطلاع نہیں تھی۔ "یہ ادارہ برسوں سے دینی تعلیم دے رہا ہے، ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہاں ایسی کوئی بات ہو سکتی ہے۔”
اسی طرح، سنچور کے مدرسے سے مولوی عثمان کو گرفتار کیا گیا جو دس برس سے وہاں تدریس کر رہے تھے۔ ان کا تعلق بارمیڑ ضلع کے پاندی کا پار گاؤں سے ہے۔
مقامی شہریوں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائیاں بسا اوقات پورے تعلیمی نظام کو شک کے دائرے میں لے آتی ہیں۔ ایک استاد یا ادارے پر الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ماحول خوف اور بداعتمادی میں بدل جاتا ہے۔
دینی مدارس کے ذمے داروں نے کہا کہ یہ ادارے عوامی تعاون سے چلتے ہیں، ان کی سرگرمیاں کھلی اور شفاف ہوتی ہیں۔ اگر کسی پر الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے، لیکن پورے نظام کو مشکوک بنانا مناسب نہیں۔ سماجی مبصرین کا کہنا ہے کہ مدارس علم، اخلاق اور سماجی اصلاح کے مراکز ہیں۔ ان پر شک کا سایہ ڈالنا سماج میں تقسیم اور بےاعتمادی کو بڑھاتا ہے۔
اے ٹی ایس کے مطابق، پانچوں افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے اور معاملے کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
