علم الصیغہ (عربی ترجمہ) اور آدابِ تعلیم و تربیت( اردو ترجمہ ): ایک تعارفی مطالعہ
تبصرہ: محمد روح الامین قاسمی
(1) علم الصیغة (عربی)
عربی مترجم: مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی، استاذ دار العلوم دیوبند
صفحات: 164، قیمت: 70 روپے
پہلا ایڈیشن: 2006ء
آٹھواں ایڈیشن: 2021ء
ناشر: مکتبہ الفاروق دیوبند
’’درس نظامی‘‘ کے تحت پڑھائی جانے والی ابتدائی استعداد ساز کتابوں کی فہرست میں جنگ آزادی – 1857ء کے ایک عظیم مجاہد مفتی عنایت احمد کاکورویؒ (1813ء – 1863ء) کی علمِ صرف پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ’’علم الصیغہ‘‘ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، مصنف نے جزیرہ انڈمان کے جیل میں رہ کر ہی محض اپنی یاد داشت سے اتنی جامع کتاب لکھی تھی، جو حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کی تحریر کے مطابق مصنف کی ایک طرح کی کرامت ہی سمجھی جا سکتی ہے۔
اصل کتاب فارسی میں ہے۔ اس کی متعدّد اردو شروحات اور دو اردو تراجم سامنے آئے، جن میں مفتی محمد رفیع عثمانیؒ کا اردو ترجمہ (1978ء) زیادہ مقبول ہے، جب کہ ایک بریلوی عالم غلام نصیر الدین چشتی کا اردو ترجمہ (1992ء) بھی دستیاب ہے۔
علاوہ ازیں اس کتاب کے دو عربی ترجمے بندہ کے سامنے ہیں: (1) ڈاكٹر ولی خان مظفر سواتی (متولد: 1971ء) کا عربی ترجمہ، جس کا پہلا ایڈیشن 2010ء میں شائع ہوا، (2) مولانا مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی کا ترجمہ جس کا پہلا ایڈیشن 2006ء میں شائع ہوا تھا اور آٹھواں ایڈیشن 2021ء میں شائع ہوا، جس کے آغاز میں حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی (متولد: 1936ء) کے حوصلہ افزا کلمات اور مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ (1940ء – 2017ء) اور مولانا سید ارشد مدنی (متولد: 1941ء)، صدر جمعیۃ علماء ہند کی مشترکہ تقریظ شامل ہے۔
اس کے مترجم مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ معین مدرسی (2001–2ء) میں علم الصیغہ کی تدریس کے ساتھ اس کتاب کو عربی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا، ڈابھیل کے زمانۂ تدریس میں یہ ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور پہلی بار 1427ھ مطابق 2006ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ ایک سال بعد 1428ھ مطابق 2007ء میں مترجم موصوف کا تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا، 1440ھ مطابق 2021ء میں درجۂ وسطیٰ ب میں ان کی ترقی ہوئی اور اب 1447ھ (2025ء) میں درجات متوسطہ کی کتابوں کا درس بھی ان سے متعلق ہے۔
زیر نظر عربی ترجمہ اپنی آٹھویں ایڈیشن کے ساتھ مندرجۂ ذیل خصوصیات کا حامل ہے: (1) ابتدا میں مؤلف کتاب مفتی عنایت اللہ کاکوریؒ کا مختصر و مدلل سوانحی خاکہ عربی میں شامل ہے، (2) عربی ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختصر عربی تعلیق بھی موجود ہے، (3) حسب ضرورت عناوین کا بھی اضافہ کیا گیا ہے، (4) مثالوں میں آنے والی آیتوں کی تخریج کی گئی ہے یعنی پارہ، آیت نمبر وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے، (5) ثلاثی مجرد کے چھٹے باب، باب ’’حسِب یحسِب‘‘ کو چھوڑ کر کہ اس سے فعلِ صحیح صرف ایک آتا ہے، کتابوں کی مثالوں کے علاوہ مشق و تمرین میں آسانی کے لیے اچھے خاصے مثالوں سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے، (6) آخر میں ’’ملحق‘‘ اور ’’أوزان الجمع‘‘ کے عنوان سے دو اہم حصے شامل کیے گئے ہیں، (7) تعلیق کے تحت معلمین و متعلمین کے لیے ہدایات و رہنمائی بھی درج ہیں، (8) مثالوں، مفردات اور الفاظ میں حسبِ ضرورت اعراب حِکائی لگائی ہے، (9) اخیر میں فہرست مراجع و مصادر شامل ہے۔ (10) عناوین و مشمولات کی فہرست اخیر میں معلق کی گئی ہے۔
فارسی زبان سے کم ہوتی ہوئی دلچسپی کے باعث مدارس اب فارسی کتابوں کے متبادل تلاش کر رہے ہیں اور چوں کہ عربی دوم میں نحو، منطق وغیرہ کی عربی کتابیں داخل نصاب ہیں تو دیگر فنون کی طرح عربی اول میں صرف کی اردو کتاب پڑھانے کے بعد عربی دوم میں فارسی یا اردو علم الصیغہ کے متبادل کے طور پر یہ عربی علم الصیغہ زیادہ موزوں اور مفید ثابت ہو سکتا ہے، اسی کے پیش نظر یہ ترجمہ کیرالا، گجرات، اتر پردیش، حیدرآباد، مغربی بنگال اور اڈیشا کے مختلف مدارس میں داخل نصاب ہے، نیز دیگر مدارس کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے؛ کیوں کہ جو چیز مشقت کے بعد حاصل ہو، پائدار ہوتی ہے اور جو چیز جلد آسانی سے حاصل ہوتی ہے، دیر پا نہیں ہوتی، فارسی کا مقولہ ہے: ’’ہر چہ زُود آید دیر نہ پاید‘‘۔
(2) آداب تعلیم و تربیت (اردو ترجمہ: تعلیم المتعلم)
ترجمہ و تحشیہ: مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی
مصنفِ ”تعلیم المتعلم طریقُ التعلم“: علامہ برہان الاسلام زرنوجی
صفحات: 72، قیمت: (درج نہیں)
اشاعت اول: 1434ھ مطابق 2013ء
ناشر: مکتبہ فاروق، دیوبند
”تعلیم المتعلم طریق التعلم“ (مصنفہ: علامہ برہان الدین زرنوجی تلمیذِ صاحبِ ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی درس نظامی کے سالِ عربی سوم (نصف اخیر) میں پڑھائی جانے والی کتاب ہے، اس کے ذریعے طلبہ کو سبقاً سبقاً تعلیم و تربیت کے زریں اصول سکھائے جاتے ہیں، جس میں زندگی بسر کرنے کے لیے رہنما باتیں لکھی ہوئی ہیں، جسے پڑھ کر زندگی کو مجلی و مصفی کرنے کے آداب سیکھے جاتے ہیں، جس کا پڑھنے والا طالب علم اپنی قدر و حیثیت کی معرفت حاصل کرتا ہے اور اپنی شخصیت سازی کرتا ہے، جس کے اندر لکھی ہوئی نصیحتوں پر عمل کرنے والا انسان با ادب اور سلیقہ مند کہلاتا ہے؛ غرضے کہ طالب علم کے حق میں یہ کتاب ایک گائیڈ بک یعنی راہ نُما کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کتاب میں مفتی سعید احمد پالن پوری اور مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کی تقریظات اور مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب حفظہ اللہ کے دعائیہ کلمات شامل ہیں۔
اتنی اہمیت کی حامل کتاب سے صرف عربی سوم کا طالب علم کیوں مستفید ہو؟ اس سے استفادے کو تو ہر مبتدی اور مطالعہ کے رسیا طالب علم کے لیے آسان بنانا چاہیے، نیز اس سے اردو میڈیم سے علومِ عصریہ پڑھنے والا طالب علم یا محض اردو داں قاری بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
مترجم اپنے عرض مترجم کے اندر الگ سے اردو میں ڈھالنے کی ایک بنیادی وجہ لکھتے ہیں:
”وہ طلبہ جو پڑھنے لکھنے میں غفلت کے عادی ہوتے ہیں، اس کتاب کو پڑھنے کے دوران اُن میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ محنتی بن جاتے ہیں، غفلت میں گزرے ایام پر انھیں ندامت ہوتی ہے اور پچھلی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ محنت و جانفشانی پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ بعض طلبہ کو اِس بات پر شدید افسوس بھی ہوتا ہے کہ کاش وہ یہ باتیں اپنی تعلیم کے ابتدائی ایام ہی میں پڑھ لیے ہوتے تو گذرے ہوئے ڈھائی سال لا اُبالی پن کا شکار نہ ہوتے۔ اِنہی باتوں کے پیشِ نظر کئی دفعہ خود مجھے بھی احساس ہوا کہ اگر کتاب کا ایسا ترجمہ اردو زبان میں ہو جائے جو ابتدائی طلبہ کے مناسبِ حال ہو تو ان کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ پچھلے دنوں جب کتاب اختتام کے قریب تھی تو اس احساس نے زور پکڑا تو اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دیا جو ڈیڑھ ماہ میں تکمیل کو پہنچا پھر تقریباً چھ ماہ تک وقفے وقفے سے تبییض، تصحیح اور تخریج کے بعد رفیقِ محترم جناب مفتی محمد ارشد صاحب (معروفی) زید مجدہ کے ساتھ مل کر نظرِ ثانی سے فراغت ہوئی۔ اللہ پاک محض اپنے فضل سے قبول فرما کر ذخیرۂ نجات بنائیں۔” (آمین)
اردو ترجمے کے مشمولات وہی ہیں جو اصل متن کے ہیں؛ البتہ کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اردو متن کے مشمولات بھی ذکر کر دیے جاتے ہیں۔ مترجم نے مصنفِ کتاب ہی کی ترتیب پر ترجمے کو بھی کو تیرہ فصلوں میں منقسم کرتے ہوئے پہلی فصل کو ”علم و فقہ کی تعریف اور فضیلت“، دوسری فصل کو ”زمانۂ طالبِ علمی میں نیت“، تیسری فصل کو”استاذ، ساتھی اور فن کا انتخاب پھر اُس پر استقامت“، چوتھی فصل کو ”علم اور اہلِ علم کی تعظیم“، پانچویں فصل کو ”محنت، پابندی اور بلند حوصلہ”، چھٹی فصل کو ”سبق کا آغاز، اُس کی مقدار اور ترتیب“، ساتویں فصل کو ”توکل علی اللہ“، آٹھویں فصل کو ”تحصیلِ علم کا زمانہ“، نویں فصل کو ”شفقت اور خیر خواہی“، دسویں فصل کو ”استفادہ“، گیارھویں فصل کو ”زمانۂ طالبِ علمی میں تقویٰ و پرہیزگاری“، بارھویں فصل کو ”حافظہ بڑھانے والی اور نسیان پیدا کرنے والی چیزیں“ اور تیرھویں فصل کو ”رزق اور عمر میں اضافہ کرنے والی اور اُن میں کمی کرنے والی چیزیں“ کا عنوان دیا ہے۔
مترجم نے سلیس و بامحاوہ اردو ترجمے کے علاوہ جہاں جہاں ضرورت محسوس کی، وہاں مفید حواشی بھی لگائے ہیں اور قابلِ تخریج مقامات کی تخریج کرتے ہوئے حاشیے میں احادیث وغیرہ کے حوالے بھی دیے ہیں اور جہاں مراجع کے اندر کوئی بات نہ ملی سکی، صاف صاف معذرت کر لی اور یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مراجع میں موجود ہی نہیں؛ بلکہ نہ ملنے کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے کہیں لکھا کہ ” جن مراجع تک مترجم کی رسائی ہو سکی“ یا ”دستیاب مراجع“ میں نہ مل سکی اور یہی ایک ذمہ دار و امین محقق و مصنف کا رویہ بھی ہوتا ہے۔
مترجم کا مختصر تعارف:
مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی حفظہ اللّٰہ کا تعلق مشرقی ہند میں واقع ریاست اڈیشا (قدیم نام: اڑیسہ) سے ہے۔ آپ کی پیدائش 8 صفر 1394ھ مطابق 3 مارچ 1974ء کو التی، ضلع جاجپور، اڈیشا میں ہوئی۔ آپ نے مقامی مدارس میں پھر جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ، اڈیشا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، جہاں سے آپ نے 1420ھ مطابق 1999ء میں دورۂ حدیث کا سال پڑھا اور آئندہ سال وہیں سے تکمیلِ افتا کا نصاب مکمل کرکے سندِ فضیلت حاصل کی۔ آپ نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ معین مدرسی (2001–2ء) میں علم الصیغہ کی تدریس کے ساتھ اس کتاب کو عربی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا، ڈابھیل کے زمانۂ تدریس میں یہ ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور پہلی بار 1427ھ مطابق 2006ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ ایک سال بعد 1428ھ مطابق 2007ء میں مترجم موصوف کا تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا اور 1440ھ مطابق 2021ء سے درجۂ وسطیٰ ب کے استاذ کی حیثیت سے تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ عربی ششم کی تفسیر جلالین و منتخب الحسامی، عربی پنجم کی سلم العلوم اور عربی چہارم کے ترجمۂ قرآن پاک کا نصاب (سورۂ یوسف تا سورۂ ق) بھی ان سے متعلق ہے۔ پنچم کی مختصر المعانی و نور الانوار بھی ان سے متعلق رہی ہیں۔
مذکورۂ بالا دونوں کتابوں (علم الصیغہ عربی و آداب تعلیم و تربیت) کے علاوہ ان کی ایک کتاب تعلیل القرآن شائع ہوچکی ہے، جو سورۂ ق سے سورۂ ناس تک کے معلَّل کلمات پر مشتمل ہے۔ اس کا اگلا حصہ ”الاِعلال فی کلمات القرآن“ جیسے عنوان کے تحت پورے قرآن کے مُعلَّل کلمات پر مشتمل ہوگا، جس میں تعیللات والے الفاظِ قرآن کی تعلیل علم الصیغہ اور دیگر قواعدِ تعلیل کی کتابوں سے ماخوذ ہوگی ان شاء اللہ۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مترجم کی ان علمی خدمات کو قبول فرمائے اور طلبہ و علماء کو ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
