اتراکھنڈ میں دو سو سے زائد مدارس سیل: "تعلیم جہاد" کا الزام
خصوصی رپورٹ: غالب شمس
ہندوستان کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں جنوری 2025 سے اب تک 200 سے زائد مدارس کو سیل کیا جا چکا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ادارے "بغیر رجسٹریشن” اور "مدرسہ بورڈ کے طے کردہ ضابطوں کے خلاف” چل رہے تھے، ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے ان مدرسوں کی فنڈنگ کی بھی جانچ کا بھی حکم دیا ہے۔ اور کئی بار اپنے بیانات میں مسلمانوں پر ’مدرسہ جہاد‘ اور ’تعلیم جہاد‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
ریاستی سطح پر جاری اس مہم نے ریاست کی اقلیتی برادری، قانونی ماہرین، سماجی تنظیموں اور اب عدلیہ کے بعض حلقوں میں شدید تشویش پیدا کردی ہے، اس کارروائی سے آئینی اور قانونی پہلو، مذہبی آزادی اور حکومت کی نیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ہریدوار میں مقیم سماجی کارکن توفیق الٰہی قاسمی کا کہنا ہے کہ ” یہ مہم مسلمانوں کی دینی تعلیم پر قدغن لگانے اور مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کی غرض سے چلائی جا رہی ہے۔ غیر قانونی مدرسے کا پروپیگنڈہ چلایا گیا، حالانکہ بیشتر مدرسے ذاتی یا وقف کی زمینوں پر قائم ہیں، اور کسی سرکاری زمین پر تجاوزات نہیں کیے گئے۔“
قاسمی کا کہنا ہے کہ اکثر مدارس ذاتی یا وقف زمین پر قائم ہیں اور انہوں نے کسی سرکاری زمین پر قبضہ نہیں کیا۔ ان کے بقول، "یہ ریاست کی پہلی سرکار ہے جس نے اتراکھنڈ جیسے پُرامن اور بھائی چارے والے ماحول کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی کی حکومتیں بھی یہاں رہیں، مگر اس درجہ تعصب اور نفرت انگیز کارروائیاں نہیں دیکھی گئی”
انہوں نے ایک طویل گفتگو میں روایت کو بتایا کہ ”مدارس کی سیل بندی سے قبل حکومت کی جانب سے کوئی واضح یا متعینہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ صرف ایک عمومی نوٹس دیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جو بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں، ان کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرا دیا جائے۔ یہ نوٹس بھی رسمی نوعیت کا تھا۔”
سماجی کارکن حافظ شاہ نظر نے بتایا کہ ”اتراکھنڈ میں اب تک 214 مدرسے سیل کیے جا چکے ہیں، اور جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں اور مقامی علماء و سماجی کارکنان کے تعاون سے اب تک 30 مدارس کی تالا بندی کھل چکی ہے۔“ ان کے مطابق یہ اعداد و شمار جمعیت کے اترکھنڈ ونگ کی تحقیقاتی رپورٹ پر مبنی ہیں، جبکہ ذرائع ابلاغ کی بیشتر رپورٹیں اب تک صرف 180 مدارس کی بندش کا ذکر کر رہی ہیں۔
قرآن ٹیوشن کی وجہ سے گھرمیں بھی تالابندی :
نینی تال ضلع کے رام نگر علاقے میں اب تک 17 مدارس کو سیل کیا جا چکا ہے۔ سب ڈویژنل مجسٹریٹ پرمود کمار کے مطابق، یہ کارروائی تعلیم، عمارت اور دستاویزات کی جانچ کے بعد کی گئی۔ تاہم، متاثرہ مدرسوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں نہ تو کوئی نوٹس دیا گیا، نہ ہی اپنا موقف رکھنے کا موقع ملا۔
سیل کیے گئے مدارس کی فہرست میں متعدد چھوٹے بڑے مدارس شامل ہیں، جن میں مدرسہ انوار القرآن، مدرسہ فیضان رضا، مدرسہ ناصرالعلوم، مدرسہ گلشن گوسیہ اور دیگر شامل ہیں۔ یہ تمام مدارس مسلم اکثریتی محلوں میں دہائیوں سے قائم تھے اور بنیادی دینی تعلیم فراہم کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ جز وقتی ( ٹیوشن) میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے مکاتب قائم ہوتے ہیں، اور قیام و طعام کے ساتھ کل وقتی تعلیم کے لیے رجسٹرڈ سوسائٹی یا ٹرسٹ کے تحت مدارس قائم ہوتے ہیں، ریاستی حکومت نے دونوں کو بند کردیا، بلکہ جن گھروں میں چند بچے قرآن ٹیوشن میں پڑھتے تھے، وہ گھر بھی تالابندی کی زد میں آئے ۔حکومت نے یکطرفہ طور پر یہ کارروائی کی۔ غورطلب رہے کہ رام نگر علاقے میں مولانا رئیس کا ذاتی مکان سیل کردیا گیا، جہاں وہ اپنے گھر کے بچوں کو صرف عصری تعلیم کے بعد بنیادی دینی تعلیم دیتے تھے۔
اس سلسلے میں حافظ شاہ نظر نے حق معلومات کے تحت اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ سے مدارس و مکاتب کی منظوری کے بارے خط لکھ کر جواب طلب کیا۔ اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ نے تحریری جواب میں واضح طور پربتایا کہ مدرسہ بورڈ سے منظوری صرف مدارس کے لیے ضروری ہے، مکاتب کے لیے نہیں۔
انہوں نے مکاتب اور مدارس کے درمیان فرق ملحوظ رکھا کہ مکاتب وہ ہیں جو صرف بنیادی دینی تعلیم دیتے ہیں، یعنی کوچنگ سنٹرز جیسے ادارے—جہاں بچے صبح کچھ دیر پڑھتے ہیں، پھر اسکول چلے جاتے ہیں، اور شام میں واپس آکر پڑھتے ہیں۔ جبکہ مدرسے وہ ہیں جہاں بورڈنگ کی سہولت ہوتی ہے، اور بچے مکمل وقت وہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جن مکاتب میں تعلیم دی جاتی تھی، وہاں کے اکثر بچے پہلے ہی دن میں سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے، اور صرف صبح یا شام کے اوقات میں دینی تعلیم (مکتب) کے لیے آتے تھے۔ مدرسہ ارشاد العلوم، دھندیرہ (رڑکی کے قریب) میں بچے صبح دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول چلے جاتے تھے اور شام کو واپس آکر مغرب کے بعد دوبارہ دینی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کی اقلیتی برادری تعلیمی میدان میں مسلسل عدم مساوات اور پسماندگی کے احساس کا شکار ہے۔ حکومت کی دلیل تعلیم میں شفافیت اور ضابطہ بندی ہے۔اس تناظر میں مدارس پر کارروائی کو ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ مانا جا رہا ہے جس میں مسلم کمیونٹی کی خود مختاری، تعلیمی کوششوں اور مذہبی آزادی پر آہستہ آہستہ قدغن لگایا جا رہا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ادارے مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ نہیں، بیشتر مدارس میں جو مضامین پڑھائے جا رہے ہیں (مثلاً حفظ قرآن، ناظرہ، قرأت) وہ مدرسہ بورڈ کے نصاب کا حصہ ہی نہیں ہیں۔تو ایسے میں حافظ شاہ نظر کا سوال ہے کہ پھر مدرسہ چلانے والے بورڈ کو منظوری کے لیے درخواست دیں بھی تو کس بنیاد پر؟ یہ ایک واضح متضاد پالیسی ہے۔
آئینی لحاظ سے ایسے اداروں کو زیادہ سے زیادہ "غیر منظور شدہ” (Unrecognized) کہا جا سکتا ہے، مگر انہیں "غیر قانونی” (Illegal) کہنا نہ صرف غلط تعبیر ہے، بلکہ اقلیتوں کو بدنام کرنے کی مہم معلوم ہوتی ہے۔
عدالتی دخل اندازی
حکومت کی اس سخت گیر پالیسی کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ 3 اپریل 2025 کو عدالت نے دہرادون کے مدرسہ انعام العلوم کی سیلنگ ختم کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح 11 جولائی کو مزید چار مدارس کو کھولنے کی اجازت ملی جن میں مدرسہ ارشاد العلوم (ڈھنڈیرہ)، مدرسہ دارالعلوم قاسمیہ (سلیم پور)، اور مدرسہ فیض عام (گوجر بستی) شامل ہیں۔
ریاستی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل ایس این بابولکر نے دلیل دی کہ یہ مدارس حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ تاہم درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ وہ ایک رجسٹرڈ سوسائٹی کے تحت قانونی طور پر مذہبی تعلیم کا ادارہ چلا رہے ہیں اور بغیر کسی قانونی نوٹس یا اختیار کے جائیداد کو سیل کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ مدرسہ کی جائیداد کو سیل کرنے کے لیے قانونی دفعات اور طریقہ کار کو واضح کرے۔
کیا یہ مہم اصلاحات کی ہے یا تعصب کی؟
ایک جانکاری کے مطابق، اتراکھنڈ میں مدرسہ بورڈ سے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 419 ہے، جن میں سے 192 اداروں کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔
حکومت کی دلیل ہے کہ وہ تعلیمی نظام کو شفاف اور منظم بنانا چاہتی ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف مذہبی آزادی پر ضرب ہیں، بلکہ تعلیمی انصاف اور آئینی مساوات کے تقاضوں سے بھی انحراف ہے۔ اور موجودہ صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان اداروں کو باقاعدہ بنانے کے لیے مکالمے، تربیت اور رہنمائی فراہم کرے گی، یا صرف "غیر قانونی” کا ٹھپہ لگا کر انہیں بند کرنا ہی اس کی واحد پالیسی ہے؟


1 thought on “اتراکھنڈ میں دو سو سے زائد مدارس سیل: "تعلیم جہاد” کا الزام ”